از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
اولاد کی تربیت ہمارے ذمہ لازم ہے۔ اور اُس تربیت کا بہترین ذریعہ ہماری
اپنی تربیت ہے۔ اولاد ہماری گفتگو کو تھوڑا اور ہمارے عمل کو زیادہ قبول
کرتی ہیں۔آج لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ نماز نہیں
پڑھتا؛ چلو ہم نہیں پڑھتے کم از کم یہ تو پڑھے۔ تو مَیں کہتا ہوں کہ یہ
کیوں پڑھے؟؟ جب تم مصلیٰ بچھاؤ گے تو یہ بھی بچھائے گا۔تو ہم نے اپنے عمل
سے اپنی اولاد کو سیدھا کرنا ہے اور اُن کو درست راستے پر لانا ہے۔ بالخصوص
بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں ؛ اس وقت وہ ماں باپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں۔
انہیں ماں باپ سے بہت زیادہ محتاجی ہوتی ہے، وہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ اور
ماں باپ کی عادات کو کاپی کرتے ہیں۔ اور عموماً ہم بچوں کو اُس عمر میں
توجہ نہیں دیتے۔ چار سال سے لے کر کے آٹھ نَو سال تک کی عمر کا بچہ
انتہائی توجہ کا مستحق ہے؛ کہ ماں بھی توجہ دیں اور باپ بھی توجہ دیں۔ اس
کے بعد وہ پھر آہستہ آہستہ مانوس ہونے لگتا ہے اپنے دوستوں سے۔ اور
بالخصوص بارہ تیرہ سال کے بعد وہ مانوس ہوجاتا ہے اپنے دوستوں سے۔ پھر اُس
نے جو سیکھنا ہے وہ دوستوں سے سیکھتا ہے۔ اگر دوست اچھے ہوں گے وہ اچھائیاں
سیکھ جائے گا اور اگر دوست بُرے ہوں گے تو وہ بُرائیاں سیکھ جائے گا۔ اُس
وقت ہم پریشان ہوتے ہیںکہ ہماری اولاد ہمارے پاس بیٹھتی نہیں ہیں۔ اصل میں
اب اُس کے بیٹھنے کی عمر نہیں رہی۔ کیوں کہ وہ تمہارے ہم عمر نہیں ہیں کہ
وہ تمہارے ساتھ بیٹھے۔ اور اب وہ بچے بھی نہیں رہے۔ تو اب وہ اپنی ہم عمر
نسل کو تلاش کریں گے۔ اُس وقت اگر ہم اولاد کو کھینچیں گے تو وہ ہمارے پاس
نہیں آئیں گے ؛ کیوں کہ جو وقت تھا وہ ہم نے ضائع کردیا۔
لیکن پھر بھی ہمیں اِس دور میں اولاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایک تو
کوشش کرنی چاہیے کہ اچھے لوگوں کی دوستی اُن بچوں کے ساتھ کرنے کی کوشش
کریں۔ المرء علیٰ دینِ خلیلہٖ فلینظر احدکم من یخالل (سنن ابو داؤد باب من
یؤمر ان یجالس الخ) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر شخص اپنے دوست کے
دین پر ہوتا ہے۔ تو جب وہ دوستی لگانے لگے تو وہ دیکھے کہ وہ دوستی کس سے
لگا رہا ہے۔ تو جب یہ عمر بچوں کی پہنچ جائے تو اس وقت یہ خیال کیا جائے۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ پندرہ سال سے لے
کر کے بیس سال تک کی عمر انتہائی اہم عمر ہے۔ اور اس عمر میں ہی نظریات
بنتے ہیں اور خیالات پختہ ہوتے ہیں۔ اور جس نے اِس عمر کو سنبھال لیا ، اُس
نے اپنی زندگی سنوار لی۔ اور جس کی یہ عمر بگڑ گئی اس کا سب کچھ بگڑ گیا۔اس
وقت میرے خیال کے مطابق پندرہ سے بیس سال تک کی اِس عمر کو دوست بھی اتنا
بگاڑ نہیں سکتے ، معاشرہ بھی اتنا نہیں بگاڑ سکتا ؛ اِس عمر کو اِس وقت سب
سے زیادہ جو چیز بگاڑ رہی ہے وہ ہمارا سوشل میڈیا ہے ، ہمارا الیکٹرانک
میڈیا ہے اور یہ موبائل ہے جو ہر بچے کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ تو کم از کم
پندرہ سال سے لے کر کے بیس سال تک کی عمر کے بچوں کو آپ موبائل لے کر نہ
دیں۔ اور انتہائی ضرورت پر انہیں استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ باقی ان کو اس
عمر کے اندر اگر آپ نے اجازت فراہم کردی اور وہ آپ کے کَہے میں نہ رہے تو
یہ ایسی بربادی ہے ایسی، تباہی ہے کہ جس کا ازالہ بعد بہت مشکل ممکن ہوگا۔
تو اِس وقت سب سے زیادہ جو چیز ہمیں نقصان پہنچارہی ہے، ہمارے معاشرے کو جو
چیز کھوکھلا کررہی ہے وہ یہ چیز ہے۔ مَیں کل کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ
انڈیا کا جو معاشرہ ہے؛ اُس کا جو نوجوان ہے؛ وہ بالکل اِس میڈیا کی وجہ سے
برباد ہوگیا ہے۔ اور پاکستان میں بھی اس کے اثرات بہت سارے ہیں۔ لیکن یہاں
اب بھی کوئی کچھ شرم و حیا موجود ہے، لیکن اگر ہم نے اپنی نسل کے آگے بند
نہ باندھا تو یہ میڈیا مغرب کی جانب سے ہماری معاشرتوں کو تباہ کرنے کے لیے
ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اور ہماری نسل بڑی تیزی کے
ساتھ اس کا شکار ہورہی ہے۔ اور گھر لُٹ رہے ہیں، شرم و حیا کا جنازہ نکل
رہا ۔
تو اِس حوالے سے والدین کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ پھر ہاتھ
مَلیں گے تو اُس کا کوئی علاج نہیں ہوگا۔
***
|