کرونا وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو بظاہر تو بہت چھوٹا اور
معمولی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت اس معمولی وائرس نے گزشتہ آٹھ ماہ سے
پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر نچانا رکھا ہے اور ہر طرف خوف و ہراس اور
تہلکا مچایا ہوا ہے۔ جس کے سفر کا آغاز تو چین کے ایک شہر ووہان سے ہوا تھا
پر آج پاکستان سمیت دنیا کے 213 ممالک اس وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ پھر
چاہے دنیا کا سُپر پاور ملک ہو یا پھر کوئی ترقی پذیر ملک سب نے اس وائرس
کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ جس کے باعث ڈبلیو- ایچ- او کی جانب سے اس کرونا
نامی وائرس کو ایک عالمی وبا قرار دیا جا چکا ہے۔ آج امریکہ جسے اپنے سپر
پاور ہونے پر غرور تھا وہ بھی اس وباء کے آگے بالکل لاچار اور بے بس دکھائی
دے رہا ہے تو اگر ایسے میں پاکستان کی صورتحال کی بات کی جائے تو پاکستان
نے کافی حد تک اس وائرس پر قابو پا لیا ہے لیکن اگراس وقت کی بات کی جائے
جب کرونا پاکستان میں داخل ہوا تھا تو اس وقت کرونا پاکستان میں بہت تیزی
سے پھیلا جس کے باعث لاکھوں لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے لیکن آج پاکستان میں
کورونا کے مریضوں کی تعداد 287300 جس میں سے کل ہلاکتوں کی تعداد 6153 اور
صحت یاب ہونے والے مریضوں کی مجموعی تعداد 265،215 ہے۔ جبکہ اس وقت ملک میں
ایکٹیو کیسس کی کل تعداد 93215 ہے اور یہ کمی بھی گزشتہ ایک ماہ سے ہر
بدلتے دن کے ساتھ تیزی سے دیکھنے میں آ رہی ہے شاید ہمیں اتنی جانوں کا
نذرانہ پیش نہ کرنا پڑتا اور آج شاید پاکستان 213 ممالک کی فہرست میں بھی
شامل نہ ہوتا اگر بروقت اقدامات کیے جاتے لیکن افسوس کے ساتھ جب پوری دنیا
اس عالمگیر وبا کو سنجیدگی سے لے رہی تھی، اس وقت ہم نے اس پر توجہ نہ دی
اور غفلت کا بھی شدید مظاہرہ کیا۔ حکومت ہمیشہ ہی کی طرح اپنے سیاسی بکھڑوں
میں اس قدر الجھاؤ کا شکار تھی کہ جب ملک میں پہلا کیس رپورٹ ہوا تب بھی
کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کئے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرونا آہستہ
آہستہ ملک میں اپنے پنجے گاڑھتا چلا گیا۔ اس صورت حال میں عوام نے بھی بے
احتیاطی اور لاپرواہی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ
ایس او پیز کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا یہاں تک کہ جب ملک میں لاک ڈاون جیسی
صورتحال تھی اس دوران بھی عوام نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور ہر قسم کی
احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز کو ہوا میں اڑا دیا تو اگر ایسے میں جب
ھمارا ملک ایک عالمی وبا کی لپیٹ میں ہیں تو اس نازک صورتحال میں میڈیا کے
کردار پر بات کرنا غلط نہ ہوگا کیونکہ حکومت اور عوام کے درمیان ایک میڈیا
ہی وہ ذریع ہے جو پل کا کردار ادا کرتا ہے۔
میڈیا جو آج کے دور میں ایک طاقتور ہتھیار تصور کیا جاتا ہے جو عوام کو
ناامیدی اور لاچاری کے اس دور میں امید کی کرن دیکھا سکتا تھا اور عوام میں
شعور فرائم کرنے میں اپنی بے مثال خدمات انجام دے سکتا تھا ۔ لیکن افسوس!
جب پوری دنیا اس عالمی وبا کرونا سے لڑ رہی تھی تب کسی نیوز چینل پر کوئی
مہم کوئی بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کو نشر نہیں کیا گیا یعنی اس وقت کرونا
کو سنجیدہ ہی نہ لیا گیا۔ لیکن جیسے ہی 26 فروری 2020 کو کرونا کی فلائٹ
ایران سے پاکستان لینڈ ہوئ تب سے ابھی تک پانچ ماہ گزر گئے اور ہر نیوز
چینلز پر سوائے کرونا کے کوئی اور خبریں ہی نہیں۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
جیسے ہمارا وطن عزیز تمام مسائل سے پاک ہو چکا ہے۔
ایک طرف تو میڈیا ہمیں آگاہی فراہم کرنے کے لئے تنہا تنہا کے اشتہارات کا
سہارا لے رہا ہے کہ کرونا سے "ڈرنا نہیں ہمیں لڑنا ہے" اور "گھروں پر رہیں
محفوظ رہیں" جیسے اشتہارات نشر تو کیے جارہے تھے۔ تاکہ عوام میں کرونا کے
خلاف شعور بیدار کیا جاسکے جبکہ خود دوسری جانب پورا پورا دن کورونا کو نشر
کرتے رہے جس سے عوام کے ذہنوں پر شدید خوف طاری ہوگیا۔ ان کے ذہنی دباؤ کو
کم کرنے کے لئے کوئی خصوصی پروگرام نہیں چلایا گیا ۔ صرف کچھ مختصر پیغامات
بہت ہی کم دورانیے (جیسے ، 30 سیکنڈ یا 1 منٹ) کے ساتھ نشر کیے جارہے تھے
اور وہ بھی عہد وقت پر نہیں۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس پوری صورتحال میں
میڈیا نے سوائے خوف و ہراس اور عام شخص کو ذہنی مریض بنانے کے علاوہ کوئی
مثبت کردار ادا نہیں کیا تو یہ غلط نہ ہوگا۔ شاید میڈیا کو دوسروں کے عیب و
غلطیاں دکھانے اور ان پر انگلی اٹھانے کی اتنی عادت ہوگئ ہے کہ اینکرز
صحافی و حضرات اپنے آپ پر شاید نظر ثانی کرنا بھول ہی گئے۔ ہمارے پڑھے لکھے
دانشور صحافی حضرات و اینکرز عوام میں تو کرونا کیلئے آگاہی فراہم کر رہے
ہیں لیکن خود کرونا کے خلاف احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ کر سکے پھر
چاہے نیوز چینل کے اینکر پرسن ہو یا کسی ٹاک شو کے مہمان کسی نے بھی آیس-
او- پیز پر عمل نہ کیا نہ ہی ماسک کا استعمال لازم قرار دیا۔ تو کیا۔۔۔
ہمارا میڈیا اور اس کے صحافی لوگ کرونا فری ہیں؟ کیا ان لوگوں کے لیے کسی
قسم کی کوئی ایس او پیز مرتب نہیں کی گئ ؟ جو چینل لگاؤ صرف کرونا پھر چاہے
ہیڈلائنز ہو یا کوئی ٹاک شو ہر جگہ کرونا ہی زیربحث رہا۔ جبکہ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ جب ملک میں کرونا وائرس آیا تبھی سے میڈیا کو عوام کے لئے ایک
رول ماڈل بن کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور ہروقت کورونا کی
خبریں نشر کرنے کے بجائے کوئی وقت مختص کرتے اور پھر روزانہ اسی وقت کورونا
کی صورتحال سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا اور بذات خود بھی ان پر عمل کرتے
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پوری سنگین ترین صورتحال میں میڈیا
کچھ اور ہی حقیقت بیان کرتی رہی۔ اس صورتحال میں بھی نیوز چینلز ہمیشہ کی
طرح اپنے چینل کو دوسرے چینلز پر سبقت لے جانے کے لیے کورونا جیسی عالمی
وبا کو تک نشانہ بنانے سے پیچھے نہ ہٹے۔ جی ہاں! جب ایک نیوز چینل پر کرونا
کے کل مریضوں کی تعداد کچھ ہزار بتائی جا رہی تھی تو اسی وقت دوسرے نیوز
چینلز پر کئی ہزار بتائی جارہی تھی۔ اصل حیرانگی تو اس وقت ہوئی جب میڈیا
کی جانب سے ایسا غیرذمہ دارانہ رویہ دیکھنے کو ملا جب برطانوی وزیراعظم
'بورس جانسن' کورونا وائرس کا شکار تھے اور حالت تشویشناک ہونے کے باعث آئی
- سی - یو میں ایڈمٹ تھے، اس وقت ہمارے ایک نیوز چینل (ڈاؤن نیوز) نے ریٹنگ
کی آڑ میں بغیر تصدیق کیے برطانوی وزیراعظم کی موت کی جالی خبر نشر کر دی۔۔
عوام کے لیے پریشان کن صورتحال تو اس وقت پیدا ہوئی۔ جب ایک ہی ملک میں دو
الگ الگ قسم کے قانون دیکھنے کو ملا۔ میڈیا پر بیٹھ کر صحافیوں نے عوام کو
تو تین فٹ کا فاصلہ رکھنے پر بہت زور دیا یہاں تک کہ اسٹور کے باہر تین فٹ
کا گول دائرہ بنایا گیا۔ ہر قسم کے ہجوم سے عوام کو منع کیا۔ تب ہمارے ہی
ملک کے ایک بڑے اور نامور نیوز چینل کے تمام ارکان سمیت پڑھے لکھے دانشور
اور سینئر صحافی حضرات اپنے چینل کے مالک کی رہائی کے لیے کئی کئی ہفتے
سڑکوں پر موجود رہے اور احتجاج ریکارڈ کراتے رہے۔ جہاں کرونا اور اس کی
احتیاطی تدبیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، جہاں ایس- او- پیز کی کھلم
کھلا دھجیاں بکھیریں گئیں۔ تو یہاں سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی
کاروائی کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔؟ کیوں ان لوگوں کی گرفتاریاں نہیں
کی گئی ؟
ایک طرف ملک میں نازک صورتحال------تو دوسری طرف گیم شوز میں انعامات کی
برسات
جب ملک لاک ڈاؤن جیسی نازک صورتحال سے گزر رہا جب گھروں سے باہر نکلنے پر
ڈنڈے اور اٹھک بیٹھک جیسی سزائیں دی جا رہی تھی، جب گلی کی مسجد تک جانے تک
کی اجازت نہ تھی، جب بیچاری غریب عوام ایک وقت کی روٹی کے لئے ترس رہی تھی،
جب ظفرعباس جیسے ( سوشل ایکٹیوسٹ ) لوگوں کے گھروں میں راشن تقسیم کر رہے
تھے، جب کاروبار کے کاروبار بند تھے، جب سر پر اتنا برا وقت آن پڑا کے
لوگوں کو کھانا تقسیم کرنے کے لیے ملک کے وزیراعظم کو عوام سے چندہ مانگنا
پڑا تب اس وقت ہمارے پاکستانی میڈیا کے مختلف ٹی وی چینلز پر گیم شوز ، ٹک
ٹاک شوز، انسٹا گرام شو اور مارننگ شوز جیسے پروگرام نشر کیے جارہے تھے۔
اِیک طرف عوام بھوک سے بے حال تڑپ رہی تھی تو وہیں دوسری جانب نجی چینلز پر
گیمز میں لاکھوں روپے بطور انعام باٹے جا رہے تھے، لیکن اس وقت ہماری لاچار
حکومت نے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے پیمرا یا پھر وہ لوگ جو مسجد کا
دروازہ کھلا دیکھ کر علماء کو تو ہتھکڑیاں پہنا کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے
تھے۔ تو اب کیوں کسی نے میڈیا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، کیوں سب خاموش
تماشائی بنے رہے، کیوں کسی میڈیا کے نمائندے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی
جا سکی جبکہ ابھی تک مسجد یا کسی تعلیمی ادارے سے تو وائرس پھیلنے کا کوئ
مثبت کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ جبکہ نجی چینلز پر باقاعدگی سے نشر ہونے والے
مارننگ شو سے ضرور رپورٹ ہوا یہی نہیں بلکہ میزبان سمیت تمام مہمانوں میں
بھی کرونا وائرس کی تشخیص کی گئی اور یہاں ہمارا میڈیا جو چھوٹی سے چھوٹی
بات کو بڑا کر دکھاتا ہےاس خبر کو کسی چینل پر نہیں دکھایا گیا ہاں اگر یہی
خبر کسی مدرسے سے نکلتی تو ضرور ہر لمحہ ہمارے ٹی وی اسکرین کی زینت بنی
رہتی۔ پھر ایسے میں اس قوم اور اس کے باشندوں کا اللہ ہی حافظ ہو گا جہاں
ٹی وی چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے پندرہ
پندرہ گھنٹے تو نشریات نشر کرنا جائز ہو لیکن مساجد میں عبادت کرنے اور
تراویح پڑھنے پر ہمارے نیوز اینکرز پورے ملک میں ایک قہرام برپا کردیں۔
اگر اب بھی میڈیا سمیت تمام اداروں اور بالخصوص عوام نے سنجیدگی کا مظاہرہ
نہ کیا اور محرم پر احتیاطی تدابیر کو نہ اپنایا۔ تو کرونا کی نئی لہر اس
ملک اور اس کی معیشت کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوں گی اور جب کرونا کے کیسس
میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ اور اس وقت جب حکومت کی جانب سے بھی لاک
ڈاؤن ختم کردیا گیا ہے تو ایسے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا ایک
انتہائی غیرذمہ دارانہ فعل ہوگا۔ تو خدارا حکومت کی جانب سے جو بھی ایس-
او- پیز بتائی جارہی ہیں ان پر سنجیدگی سے عمل کریں اور اپنی اور آنے والی
نئی نسلوں کا مستقبل سنواریں۔ کیونکہ یہ ایک قومی اور بین الاقوامی مسلۂ ہے
جس کا مقابلہ ہمیں ہمت ، تعاون اور صبر سے کرنا پڑے گا۔ اس عالمی وبائی مرض
میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اتحاد وقت کا تقاضا ہے لہذا لوگوں
کو متحد کرنے کے لئے جذباتی گانوں کو اگر ان کا مناسب اہتمام کیا گیا ہو تو
وہ بڑی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اور یہاں میڈیا کو ایک اور پہلو پر غور
کرنا چاہیے کہ آجکل جو ٹیلیویژن نشریات میں اکثر خوفناک اور مہلک الفاظ
شامل ہوتے ہیں ان سے اجتناب برتا جاۓ کیونکہ خبریں زندگی اور امید کے
مقابلے میں موت اور مایوسیوں کے بارے میں زیادہ خوف پھیلاتی ہیں۔ لہذ
سیاستدانوں اور صحافیوں کو سمجھنا چاہئے کہ یہ وقت بحث و مباحثہ کا وقت
نہیں ہے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو متحد کیا جائے تاکہ کوڈ 19 کے خلاف
یہ جنگ اعلی سروں کے ساتھ جیتی جا سکے۔
شکریہ۔۔۔
|