گالی !!!

ڈاکٹر شاکرہ نندنی، پُرتگال

کچھ روز قبل میں ایک کرائم سٹوری رپورٹ کر رہی تھی۔ ملزم کیمرے پر بات کرنے سے کترا رہا تھا۔ میں نے بات کرنے میں اور دیکھنے میں بظاہر معتبر لگنے والے تفتیشی افسر سے کہا کہ "ملزم تو بات نہیں کر رہا؟"

اس پر تفتیشی بڑے اعتماد سے بولا، میڈم جی، آپ ٹھیریں ذرا۔

مجھے لگا کہ شاید ایک تھپڑ رسید کرے گا تو ملزم بولنے لگے گا مگر اس نے ملزم کو بلا کر کہا، "بول ہن یا تیری پین پیش کراں سب نوں!"

یہ سن کر مجھے تو 440 وولٹ کا جھٹکا لگ گیا۔ اس کی بہن کا اس کیس سے کیا لینا دینا؟ نہ تم اسے جانتے ہو نہ اس نے تم سے کوئی بدتمیزی کی، نہ تمہارا اس سے واسطہ پھر اس سے چھیڑخانی کا اس وقت کیا مقصد؟

میں بڑے غصے میں باہر بڑبڑاتی ہوئی نکلی کہ یہ محکمہ ہے ہی ایسا۔

ادھر گلی میں چلتے چلتے میں نے ایک 10 سالہ بچے کو کرکٹ سے منع کرنے پر ایک بوڑھے شخص کو کہتے سنا، "تیری پین نوں۔ ۔ ۔ "

اس سے میرے ذہن میں ہزار سوالوں نے جنم لیا۔ معاملہ صرف مخصوص ذہنیت رکھنے والوں کا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ معاشرے کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ گاڑی چلاتے وقت موٹر سائیکل والے نے غلط موڑ کاٹ لیا تو اس کی بہن کو بلند آواز میں یاد کر لیا گیا، پیٹرول پمپ والے پیٹرول نہیں دیا، بجلی بےوقت چلی گئی، سبزی والے نے خراب سبزی ڈال دی، ان تمام خرابیوں کا سب سے آسان علاج یہ ہے کہ ان کے گھر کی خواتین کی زبانی بےحرمتی کر دی جائے۔

گالی منہ سے نکل جانا شدید غصے کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے لیے آپ کسی کو خبیث کہہ لیں، لعنتی کہہ لیں یا شیطان کہہ لیں، یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر گھر کی خواتین، ماں، بہن یا بیوی کا لفظی ریپ کرنے کرنے کی کیا تُک بنتی ہے؟ گالی چاہے پنجابی کی ہو یا اردو کی یا انگریزی کی، بہن کے اعضا سے بات شروع ہوتی ہے اور ماں کے ریپ پر ختم ہوتی ہے۔

میرے خیال میں دو متضاد جنسوں کے جسموں کا آپسی تعلق اسی لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ لطف دیتا ہے اور اسی لطف کے لئے کئی لوگ جان بھی داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔ لیکن غصے میں اس جنسی ملاپ کے چیر پھاڑ دینے کی دھمکیاں دینے سے کیا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے؟ مجھے آج تک اس بات کا جواب نہیں ملا۔ ایک بند کمرے میں محبت بھری کسی رات کا تو سب خواب بنتے ہیں اور اس تعلق کو مقدس سمجھتے بھی ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے کسی کرایہ دار نے کرایہ وقت پر نہ دیا تو اس کی بہن سے زنا کا کہہ کر غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ بھئی یہ کیا سائنس ہوئی؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے ہر طبقے نے غصہ نکالنے کے لیے ریپ کرنے کو گالی بنا لیا ہے۔ عورت چونکہ کمزور ہے، یا کمزور سمجھی جاتی ہے، اپنا دفاع نہیں کر سکتی، اور مرد چونکہ خود کو اس کا پاسبان، والی وارث اور عزت کا رکھوالا سمجھتا ہے، اس لیے گالی دینے والا جان بوجھ کر اس مرد کے سب سے نازک مقام پر ضرب لگاتا ہے تاکہ اسے سب سے زیادہ تکلیف پہنچے۔

جو بےچاری خاتون گھر میں بیٹھی صفائی ستھرائی کر رہی ہے، یا کھانا بنا رہی ہے، یا کسی دفتر میں کام کر رہی ہے، اسے کیا خبر اس کے بیٹے، بھائی یا خاوند کی وجہ سے اس کا دن میں کتنی بار زبانی ریپ ہوتا ہے۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 212221 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More