ایک لکڑہارے کی دوستی جنگل کے شیر سے ہوگئی۔لکڑ ہارا گھر
میں اپنے دوست کی تعریفیں کرتا نہ تھکتا تھا۔ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتا
تو شیر اسے جنگل کی سیر کرواتا،ایک دن لکڑہارے کے دل میں خیال آیا،کیوں نہ
اپنے دوست کی دعوت کر دی جائے۔لکڑ ہارے نے شیر کو اپنے گھر دعوت پر بلا
لیا۔شیر بھی خوشی خوشی آگیا۔جب شیر نے کھانا کھایا تو لکڑہارے کی بیوی نے
دروازے کی اوٹ سے شیر کو دیکھ لیا۔اسے شیر کے کھانا کھانے کا انداز اچھا نہ
لگا۔اسی وقت لکڑہارے کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا،ایسا دوست بنایا ہے جس کو
کھانا کھانے کا بھی ڈھنگ نہیں ہے۔یہ بات شیر نے سن لی،لیکن وہ اپنے دوست کی
عزت کی خاطر خاموش رہا۔
کچھ دن گزرے تو جنگل میں شیر لکڑہارے کو ملا۔کہا کہ میرے سر پر کلہاڑا
مارو۔لکڑ ہارے کو سمجھ نہ آئی،اخر شیر ایسا کیوں کروانا چاہتا ہے
۔لکڑہارےنے کلہاڑا مارنے سے انکار کردیا۔شیر زور سے دھاڑا اور کہا میرے سر
میں کلہاڑا مارو ورنہ میں تمھیں کھا جاؤں گا۔لکڑہارا سہم گیا اور اس کے سر
میں کلہاڑا مار دیا،خون کا فوارہ چھوٹا اور شیر خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔
ایک دن لکڑہارا جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا، اچانک شیر وہاں آنکلا۔لکڑہارا
خوف زدہ ہوگیا۔سمجھا آج شیر ضرور بدلالے گا۔شیر نے کہا میرے دوست گھبراؤ
نہیں میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا۔ادھر میرے پاس آؤ اور دیکھو جو کلہاڑا تم
نے میرے سر پر مارا تھا کیا اس کا زخم مندمل ہوگیا ہے؟ لکڑہارے نے دیکھا
اور حیران ہو گیا کہ واقعی شیر کے زخم کا نام و نشان باقی نہیں تھا۔
اب شیر بولا میرے دوست کلہاڑے کا زخم کچھ دن میں بھر گیا لیکن جو تمھاری
بیوی نے میری اور تمھاری دوستی پر لفظوں کے تیر برسائے تھے،ان کے زخم آج تک
ہرے ہیں۔
اس کتھا کو سنانے کا میرا مقصد صرف یہ ہے کہ لفظوں کے تیر اصل تیروں سے
زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔الفاظ کے نشتر سے کلیجے چھلنی ہوجاتے ہیں،ساری
زندگی ان سے خون رستا رہتا ہے۔ساری زندگی انسان لفظوں کے زخموں کو سہلاتا
رہتا ہے۔نامناسب الفاظ کا استعمال رشتوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔انسان
کی قدر اس کی زبان پر منحصر ہوتی ہے۔
غلطیاں انسانوں سے سرزد ہوجاتی ہیں ۔ان غلطیوں کو نظر انداز کر دینا اچھے
لوگوں کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ایک بار حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے سودا سلف لینے بازار بھیجا،بچپن تھا، کھیل کود میں
مشغول ہوگئے۔خیال ہی نہ رہا کہ گھر سے کوئی کام آیا ہوں۔ یاد آیا تو کافی
دیر ہوچکی تھی، جلدی سے سودا لیا ،گھر پہنچے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
جب دریافت فرمایا تو کہ دیا کہ کھیل کود میں بھول گیا۔ معلم اعظم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان سے بالکل سخت الفاظ سے بات نہ کی۔بلکہ نرمی سے سمجھایا۔اس
سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہمیشہ نرم الفاظ ہی استعمال کرنا چاہیے۔ایسے الفاظ
ہرگز استعمال نہ کریں، جس سے کسی دوسرے کی اہانت نہ ہو اور نہ ہی کسی کا دل
ٹوٹے۔
گھر میں تمام فیملی ممبر اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر زندگی گزارتے
ہیں۔ہنستے بستے گھروں کو لفظوں کے تیر لہو لہان کردیتے ہیں ،یہ ایسے زخم
ہوتے ہیں جو کوشش کے باوجود مندمل نہیں ہوتے۔ غلطیوں کو معاف کرنا
سیکھیں،معمولی سی اے کا بتنگڑ نہ بنائیں۔گھر کو جنت بنانے کی کوشش کریں
،گھر کے سکون کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کریں۔خانگی زندگی میں
اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔خاندان کے سربراہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ گھر کے تمام معاملات کو نرمی سے ہینڈل کرے۔ورنہ گھروں کے تباہ ہونے
میں تیز،ترش زبان کازیادہ کردار ہوتا ہے۔زبان میں مٹھاس پیدا کرنے کی کوشش
کریں۔اپنی نئی نسل کو منفی سوچ،زہر آلود الفاظ کے استعمال سے محفوظ کرنے کی
کوشش کریں۔
خاندانوں میں دوریوں،نفرتوں،کدورتوں،دشمنیوں کی اگر تحقیق کی جائے تو ٪99
اس کے پیچھے سخت زبان،زہر آلود الفاظ ہی نکلیں گے۔
آئیے آج ہم تہیہ کریں کہ حسد ،بغض،کینہ ،نفرت،کدورتوں کے بیج نہ بوئیں
گے،بلکہ خوشیاں،محبتوں کے گلشن کھلائیں گے۔در گزر ،معاف کرنا سیکھیں
گے،خصوصا اپنے اہل و عیال میں منفی الفاظ کا استعمال ترک کریں گے۔مثبت اور
حوصلہ افزائی والے الفاظ استعمال کریں گے۔پھر دیکھیں کیسے ان کی صلاحیتیں
برگ و بہار پیدا کرتی ہیں۔
|