میرے شہر کی آواز

مظفر گڑھ


اس سال فروری 2020میں وزیر اعلی پنجاب جناب سردار عثمان بزدار صاحب نے ضلع مظفر گڑھ کا دورہ کیا اور اپنے اس دورے میں کئی وعدے مظفر گڑھ کی عوام کے ساتھ کئے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
1۔ مظفر گڑھ میں یونیورسٹی کا قیام
2۔ مظفر گڑھ سے علی پورتک دو طرفہ سڑک
3۔ چوک سرور شہید کو تحصیل کا درجہ
4۔ 400 ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل اسٹیٹ
5۔ مظفر گڑھ کی ترقی و خوشحالی کے لیے پیکیچ

مظفر گڑھ پاکستانی صوبہ پنجاب کےڈیرہ غازیخان ڈویژن میں واقع ہے اور چار تحصیلوں پر مشتمل ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو کہ 8249 سکوئیر کلومیٹر کا رقبہ گھیرے ہوئے ہے۔جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے عین وسط میں واقع یہ شہر پاکستان کا انتالیسواں بھرپور آبادی والا ضلع ہے جس میں ٹوٹل 1758 اسکولز اور 22 کالجز ہونے کے باوجود ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے اس لیے اعلی تعلیم کےلیے یہاں کی عوام کو ملتان،لاہور،کراچی یا اسلام آباد کے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔

مظفر گڑھ سے علی پور بلکہ پنجند تک کی سڑک پر آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں اور انسانی جانوں کا زیاع معمول کی بات ہو گئی ہے۔جس میں ہمارے ڈرائیوروں کی بے احتیاطی کے ساتھ خراب اور سنگل سڑک بہت بڑی وجہ ہے۔ سڑک نہایت ہی خستہ حالت میں ہے اور جا بجا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے جسکی وجہ سے حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی دفعہ شہر کی عوام احتجاج بھی کر چکی مگر حکمرانوں کے کانوں تک اپنی بات پہنچانے میں ناکام رہی اور حادثات و اموات کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

مظفر گڑھ جو کہ 4 تحصیلوں علی پور، کوٹ ادو،جتوئی اور مظفر گڑھ پر مشتمل ہےاور چوک سرور شہید موجودہ تحصیل کوٹ ادو کا حصہ ہے اس کے تحصیل بنانے سے یہاں کی عوام کو بہت سی سہولتیں اپنے شہر میں مہیا ہو جائینگی جن کے لیے انہیں پہلے کوٹ ادو یا مظفر گڑھ جانا پڑتا ہے ۔ مظفر گڑھ میں تین پاور اسٹیشنز، ایک آئل ریفائنری،چار شوگر ملز، چودہ فلورملز،بائیس ٹیکسٹائل یونٹس،دو جیوٹ ملز اور ستانوے جننگ فیکٹریز ہونے کے باوجود بھی انڈسٹریل اسٹیٹ نہیں ہے۔ گندم، کپاس،چاول، آم، کھجور اور گنا مظفر گڑھ کی اہم پیداوار ہیں جو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کا باعث ہیں۔ اب اگر وزیر اعلی صاحب نے اس میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کا اعلان کیا ہے تو یہ اس کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معیشت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

ضلع کی تقریبا پچاس لاکھ کے قریب عوام الیکشنز میں چھ قومی اور بارہ صوبائی نمائیدگان کا انتخاب کرتی ہے مگر آج تک کسی نے اس شہر کی حالت بدلنے پہ دھیان نہیں دیا اسلیے شہر کی حالت جوں کی توں ہے۔ اس دفعہ الیکشنز 2018 میں یہاں کی عوام نے بھی عمران خان کی قیادت پر بھروسہ کیا اور قومی چھ میں سے تین اور صوبائی بارہ میں سے دس سیٹوں پر پی۔ٹی۔آئِی کو کامیاب کرایا۔

ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرتا ، دریائے سندھ اور دریائے چناب کے درمیان واقع یہ خطہ زمین حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ اتنے بڑے ضلع میں عوام کی تفریح کے لیے ایک فیاض پارک ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں کی عوام ہر تہوار پہ تفریح کے لیے دریائے چناب یا پھر ہیڈ پنجند کا رخ کرتی ہے مگر ان کو بھی حکومت کی توجہ مطلوب ہے کیونکہ ہیڈ پنجند تک پہنچنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے اور پھر وہاں بھی انتظامات بالکل نہیں ،دھول اور مٹی سے ایک دوسرے کو پہنچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر گورنمنٹ وہاں عوام کے بیٹھنے اور تفریح کے انتظامات کرے تو اس سے کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلی پنجاب کیونکہ خود بھی سرائیکی خطہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ ان علاقوں کی محرومی اور ضروریات کو بہتر انداز میں جانتے بھی ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں۔ اس خطہ زمین نے ملک کے بڑے بڑے نام پیدا کیے ہیں مگر کسی نے اس خطہ زمین کی بڑھوتری کی فکر نہیں کی۔کوئی بھی میرے شہر کی آواز نہیں بنا۔ اب اس خط زمین کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور یہاں کی عوام کا وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب اور وزیر اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار صاحب سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ:
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

 

Muhammad Kamran Khakhi
About the Author: Muhammad Kamran Khakhi Read More Articles by Muhammad Kamran Khakhi: 27 Articles with 21944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.