یومِ دفاع

محمد فرقان نذیر

تاریخ گواہ ہے، 1965 کی جنگ کون اور کوئی کیسے بھول سکتا ہے کہ جب رات و رات دشمن نے للکارا اور دشمن کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ ہم لاہور میں جا کر کریں گے اور اسکے جواب میں پاکستان کی افواج اس جذبے اور طاقت کے ساتھ میدان میں آئی کہ پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستانی افواج نے کیسے دشمن کو ناک و چنے گنوائے. اس پاکستان کی تاریخ کو کوئی بھول نہیں سکتا ہے کہ جس وقت پاکستان پر حملہ کیا جا رہا تھا، کتنے لوگ اس بات کے عینی شاہد گواہ ہیں کہ کتنے لوگوں نے دیکھا کہ ایک غیبی طاقت ہے جو دشمن پر غالب آگئی تھی اور کتنے لوگوں کو یہ خواب بھی دکھائی دیا کہ ہمارے پیارے نبی کریم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) نے جنگ کا لباس پہنا ہوا ہے اور آپ (صل اللہ علیہ والہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں تو جواب میں فرمایا کہ پاکستان پر انڈیا نے حملہ کردیا ہے اور میں محمد (صل اللہ علیہ والہ وسلم) انکے لئے جا رہا ہوں. تو اللہ کے رسول (صل اللہ علیہ والہ وسلم) جس ملک کی تائید اور حمایت میں آجائیں تو اسکو کون کر مٹا سکتا ہے. اقبال نے بھی تو یوں ہی نہیں کہا تھا کہ:

مِیرِ حرم کو آئی ہے ٹھنڈی ہوا جہاں سے...
میرا دیس وہی ہے میرا دیس وہی ہے...

ہم تو خوش قسمت ہیں کہ سات برِ اعظموں میں پھیلی ہوئی یہ زمین ستاون اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے بھی اللہ نے مجھے اور آپکو یہ اعزاز بخشا ہے کہ ہم پیدا ہوئے تو اس دھرتی ماں پر ہوۓ کہ آج سے چودہ سو سال قبل پیارے نبی کریم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) ٹھنڈی ہوائیں محسوس کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں. یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے ہمارے لئے کہ جسکی ٹھنڈی ہوائیں مدینہ میں ہمارے نبی (صل اللہ علیہ والہ وسلم) محسوس کرتے تھے اللہ نے ہمیں اس ملک میں پیدا کیا. اب ہم پر ہے کہ ہم اس عظیم نعمت کی کس طرح قدر کرتے ہیں، بے شک نعمتوں کی قدر ہی اقوام کو مستحکم کرتی ہے. ہمیں چاہیے کہ پورے خلوص کے ساتھ اس ملک کی فلاح و بہبود کے لئے تگ و دو کریں بہرحال مانا کہ اس نعمت کے ساتھ قوم کے لئے امتحانات بھی بہت ہیں، مسائل بھی بہت ہیں لیکن یاد رکھیں کہ انشاء اللہ قیامت تک کے لیے قائم رہنے کے لیے پاکستان کو اللہ اور اسکے رسول (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کے مبارک نام کے ساتھ وجود میں لایا گیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ حضور اکرم (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کی عطاۓ رحمت کی بدولت آج یہ ملک ملا ہے. تاریخ دیکھیں تو 14 اگست 1947 کو جب ملکِ پاکستان مادرِ وجود میں آیا، اس وقت شبِ قدر تھی اور یہ محض اسی کا تحفہ اسکو یقیناً ایک دن عروج آنا ہی ہے. دنیا دیکھے گی کہ انشاء اللہ بہت جلد ہی وہ دن آۓ گا جب پاکستان کی ہاں اور نہ میں ہی اقوامِ عالم کے فیصلے ہوں گے. یقیناً وہ کمزور ایمان اور کمزور دل کے لوگ ہیں جو یہ کہ کر ملک چھوڑ رہے ہیں کہ پاکستان کا نام و نشان مِٹ جاۓ گا یا ناکام ہوجائے گا، ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ شبِ قدر کا تحفہ اور حضور (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کا فیض ہے کہ انشاء اللہ پاکستان قیامت تک شادوباد رہے گا. سلام ہے ہماری افواج کے سپہ سالاروں کو بھی جو اپنی ذاتی خوشیاں اور عید کی چھٹیاں قربان کر کے ہماری سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور ہر لمحے آنکھیں کھلی اور جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض سر انجام دے رہے ہیں. ہمیں پہلے تو اللہ کے رسول (صل اللہ علیہ والہ وسلم) کی نگاہِ عطا پر یقین ہے اور اسکے بعد پاکستان کی افواج کو سلام جنہوں نے قربانیاں دے کر پاکستان کو آزاد کروایا اور پاکستان کے نظریات کا تحفظ یقینی بنایا. اللہ پاکستان، اسکی عوام اور خصوصاً اسکی افواج کی حفاظت فرمائے اور انہیں بھرپور جذبہ نصیب فرمائے. ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے جذبوں کا چراغ روشن رکھیں. انشاءاللہ پاکستان کل بھی زندہ تھا، پاکستان آج بھی زندہ ہے، پاکستان کل بھی زندہ رہے گا اور انشاءاللہ تاقیامت زندہ رہے گا.
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پایندہ باد
 

Muhammad Furqan Nazir
About the Author: Muhammad Furqan Nazir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.