آخر ننھی جانوں پر ظلم کب تک؟


کچھ عرصہ سے وطنِ عزیز میں ہونےوالے بچوں پر تشدد کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح افسوس ناک ہے۔ہر روز اخبارات میں کوئی نا کوئی ایسا واقعہ پڑھنے کو مِل جاتا ہے ۔ جس سے دل دہل جاتا ہے ۔ چند ماہ قبل ایک غیر سرکاری تنظیم نے ہوشربا انکشافات پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز دس سے زائد بچے کسی نا کسی صورت میں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کو اُن کے والدین كسی نہ کسی مجبوری کے تحت کسی جگہ كام کاج کیلئے بھیجتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اِن واقعات میں مجرموں کی اکثریت بچے کے قریبی رشتے دار ،محلے دار يا والدین کے تعلق داروں کی پائی گئی ہے ۔زیادہ تر یہ بچے کسی کام والی جگہ، خالی گھر ،فصل ، یا کھیت وغیرہ میں ذیادتی کا شکار ہوتے ہیں ہم کسی قدر پتھر دل کوم ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئے دن بچوں کے جِنسی استحصال کے واقعات سن کر اب ہم مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر چند لوگ شور مچاتے ہیں، اور اس موضوع کے لوگوں کی توجہ حاصل کی جاتی ہے ۔ پھر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں ، ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔لہٰذا چند دن بعد پھر کوئی اور اس طرح کا واقعہ ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑ تا ہے اور ہمارا مردہ ضمیر وقتی طور پر پھر زندہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر بات نہایت توجہ طلب ہے کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں ٫ان کے نزدیک اچھے برے یا بڑے چھوٹے کاکوئی تصور نہیں ہوتا۔ہر ایک کو اپنا سمجھنا ان معصوموں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے ایسی صورت حال میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں كا کردار محدود ہے اور والدین کا کردار تو سب سے اہم ہوتا ہے ۔ بعض بچوں کے والدین بیمار ہوتے ہیں ۔ اور مجبوراً بچے کو گھر کا کفیل بننا پڑتا ہے ،لہٰذا باہر جا کر کام کرنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے ۔ بد قسمتی سے یہ بچے بھی اس معاشرے کے درندہ صفت لوگوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔ یہی بچے جب کسی ورک شاپ یا ہوٹل پہ جا کہ کام کرتے ہیں ۔ تو ان کا حلیہ اور چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ وہ یہاں کتنی تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ، ہر جگہ پر جنسی ذیادتی کے واقعات نمایاں ہیں، قصور میں ہونے والے اور دیگر ایسے واقعات جِنسی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں جن میں زیادہ تر دیہی علاقے شامل ہیں۔ ایسی صورت حال پائی جاتی ہے۔والدین کو محتاط رہنا چاہیے کہ اُن کا بچہ کس رستہ دار کے قریب ہے۔ یا کس سے ڈر رہا ہے اور اس کی دوستی کس سے ہے ؟ کیا ان کی عمر اس کے برابر ہے؟کیا وہ پڑھتے ہیں؟ اِن سب باتوں کا والدین کو خیال رکھنا چاہیے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔والدین اپنے بچوں پر سختی کرتے ہیں۔ اور انہیں مارتے پیٹتے ہیں جس سے ان پر دہشت طاری ہو جاتی ہے بچہ اُن سے ڈرتا ہے اور انہیں کسی بات سے آگاہ نہیں کرتا ۔ تو وہ زیادتی کو خود برداشت کر رہا ہوتا ہے اپنے بچے کی ہچکچاہٹ کو دور کریں ۔ آپ کو خود اپنے بچے کی جنسی تربیت کرنی چاہیے وگرنہ بچہ فطری مجسس سے مجبور ہوکر وہی سوالات دیگر لوگوں سے پوچھے گا،اس سے خدانخواستہ آپ کے بچے کا استحصال ہو سکتا ہے ۔ والدین اپنے اور بچوں کے درمیان فاصلوں کو کم کریں بچوں کو دوست بنائیں ، اور ان کو اعتماد دیں ، بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ جھاڑ جھپھار سے نا صرف بچے کی اخلاقیات تباہ ہوجاتی ہیں بلکہ یہ رویے انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بچوں کو ہر قسم کے تشدد سے بچانے کے لئے چائلڈ پروٹیکشن بیوروں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔ آخر ننھی جانوں پر ظلم کب تک ہوتا رہے گا؟
 

Adnan liaqat
About the Author: Adnan liaqat Read More Articles by Adnan liaqat: 9 Articles with 14927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.