انسان اور انسانیت
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
جب سے بنی نوع انسان کا وجود ظہور پذیر ہؤا اور رفتہ رفتہ معاشرہ کی تخلیق ہوئی ، اشرف المخلوقات میں بھی منفی عناصر نے سر اُٹھانا شروع کردیا، معاشرے میں یوں تو اچھا انسان بنانے کیلئے بے شمار عظیم ہستیوں نے بے انتہا کاوشیں کیں لیکن مندرجہ بالا تحریر کے مطابق تمام انسان اچھے نہیں ہو سکتے وگرنہ بنیادی اصول قائم نہیں رہ سکتا۔ میری محض کوشش ہے کہ میں اپنی حیثیت کے مطابق اچھا انسان بننے اور اپنے بعد آنے والی نسل کو بہتر انسان بنانے کیلئے چند اصول بیان کر دوں جس کے تحت ہماری روح مکمل طور سے گھائل نہ ہو، ہمیں خود بھی کامل اطمینان ہو اور معاشرہ بھی قدرے بہتر اقدار کا حامل ہو۔ انسان بنیادی طور پر تین عناصر کا مجموعہ ہے ایک "جسم" دوسرا "روح" اور تیسرا "ضمیر"۔ان تینوں کا آپس میں ایک توازن کا رشتہ ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ : ۱۔ مادّی جسم کتنا عرصہ اور کیسی صحت کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے؟ ۲۔ ضمیر انسانی جسم کے اختیاری اعمال کے مثبت و منفی ہونے کی نگرانی کرتا ہے اور ہمہ وقت متنبہ کرتا رہتا ہے۔ ۳۔ روح پہلے دو عناصر کے باہمی تعاون یا اختلاف کے نتیجے میں اپنا اصل کس حد تک برقرار رکھ پاتی ہے؟ کائنات کی ہر شے میں توازن برقرار رکھنا خالقِ کائنات کی ذمّہ داری ہے ، اسی طرح جسم اور روح میں توازن رکھنا "ضمیر" کی ذمہ داری ہے تو پھر ہمارا کیا کردار ہے یعنی جسمانی یا طبعئی؟ یہاں ہمیں بچپن کے جزاء و سزا والا نظریہ ذہن میں لانا ہوگا جو ہمارے والدین یا ہمارے بڑوں کیطرف سے ہوتا تھا اب جبکہ ہم آزادی و خود مختاری کی جانب جا رہے ہیں تو آخر جزاء و سزا کون دیگا ؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب ہمیں جنت و دوزخ کی شکل میں سمجھایا گیا لیکن جن معاشروں میں یہ نظریہ نہیں پایا جاتا وہاں کیا ہوتا ہے اور کیا ان پر ہم اپنا نظریہ تھوپ سکتے ہیں ؟ اس سے پہلے ہمیں طے کرنا ہوگا کہ دوسروں کے بارے میں ہمیں آگاہی ہوتی کیسے ہے، مزید یہ کہ آگاہی کے بھی تین مرحلے ہیں ایک گزشتہ دور کی، دوم موجودہ دور کی اور سوم مستقبل کی۔ گزشتہ دور کے بارے میں جانکاری تو تاریخ پڑھنے سے ملتی ہے، موجودہ دور کی مشاہدات کے ذریعے اور مستقبل کے بارے میں مختلف علوم کے ذریعے قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ میری معلومات کے مطابق کسی بھی تاریخی تحریر کو مستند نہیں قرار دیا سکتا جیسا کہ ہر تحریر کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے اور عصرِ حاضر میں تیکنالوجی کی جدید ترین سہولتیں میسر ہونے کے باوجود بھی ابھی اس لمحہ وجود پانے والے کسی بھی واقع کی تصدیق ناممکن ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ، انتہا تو یہ ہے کہ سچ بولنا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ موجودہ زندگی میں جزاء و سزا کا تصور دھندلا جائے تو انصاف مٹنے لگتا ہے اور بالآخر مرنے کے بعد کی جزاء و سزا کی پرواہ معدوم ہو جاتی ہے ، نتیجتاً انفرادی و اجتماعی رویئے انحطاط کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن جب میں یہ سوچتا ہوں کہ ایسی صورت میں میرا کردار کیا ہونا چاہئے تو اپنی عطا کردہ عقلِ سلیم کے مطابق اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ مجھے اپنے آپ کو صحیح رکھنا ہے۔
|