جامعات کی پیدا کردہ فوج اور ان پڑھ ہنرمند۔۔۔۔ عابد صدیق
(Abid Siddique, Rawalkot)
|
حیدر(فرضی نام)میرا تیسری سے ساتویں کلاس تک سرکاری اسکول میں کلاس فیلو تھا۔ہم اگٹھیزمین پر پچھے ٹاٹ پر بیٹھ کر ”ایک دونا دونا،دودونے چار“ پڑھا کرتے تھے۔آٹھویں کلاس سے ہم علیٰحدہ علیٰحدہ سرکاری اسکولوں میں چلے گے پھر کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی۔حیدر نے جب دسویں کا امتحان دیا تو کمپارٹمنٹ آگئی پھراس نے باقاعدہ اسکول کو خدا حافظ کہہ دیا اور مختلف تجربات کرنے لگا۔اس دوران وہ ایک قریبی رشتے دار جو پہلے ہی الیکٹریشن تھا کے پاس بجلی سے چلنے والی اشیاء ٹھیک کرنے کا کام سیکھنے لگا جس کے بدلے اسے ایک وقت ”بند“ چائے اور ایک وقت کا کھانا ملتا تھا۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔پھر ایک وقت آیا کہ بہت سارا کام وہ خود کرنے لگا۔وقت گذرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی دکان لے لی اور اپنا کام شروع کر دیا۔اس زمانے میں تو بجلی پر چلنے والی اشیاء کی تعداد بھی کم تھی اور ان کا حصول بھی ہر ایک کے یے ممکن نہ تھا۔پھر وہ وقت آیا کہ اشیاء کی تعداد بھی بڑھ گئی اور اور اس ان تک رسائی بھی ممکن ہو سکی۔یوں مرمتی کا کا م بھی بڑھتا گیا اور یوں وہ میٹرک فیل کاریگر گریڈ انیس کے سرکاری ملازم کے قریب قریب ماہانہ کمائی کرنے لگا۔ یہ تو ایک حیدر کی مثال ہے،آپ کو موبائیل فون کی مرمتی کروانی ہے،گھر کی تعمیر کے لیے دیواریں،دروازے بنوانے ہیں،المونیم کا کام کروانا ہے یا شیشے لگوانے ہیں،گاڑی ٹھیک کروانی ہے یا اس کی باڈی بنوانی ہے،گاڑی کے لاک کی چابی بنوانی ہے،انجن کا کام کروانا ہے،ٹائر ریپئیرکروانے ہیں یا پوری گاڑی کو ہی نیا کروانا ہے، گاڑی کے لیے ڈراہور چائیے یا کسی ریسٹورنٹ کے لیے اچھا ”شیف“، کھیتی باڑی کے اوزار بنوانے ہیں،مکئی اور گندم کی فصل کاشت کرنی ہے یا باغات لگانے ہیں،حتیٰ کہ کسی گاڑی کی باڈی پر لکھوائی کرنی ہے یا کسی عمارت پر یا کوئی چیز پرنٹ کروانی ہے،کپڑے سلوانے ہیں،جوتی سلوانی ہے یا بال کٹوانے ہیں آپ کو ان ساری فیلڈز میں کم پڑھے لکھے بلکہ ان پڑھ ”ہنر مند“ ملیں گے۔یہی نہیں آپ کو گائیکی والے قوال حضرات بھی کم پڑھے لکھے ہیں ملیں گے۔تجربات اور مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں کہ آپ کا کوئی کام ان ان پڑھ ”ہنر مندوں“ کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ ہمارے معاشرے میں جتنا بھی متوسط بلکہ غریب خاندان ہو اس کے سربراہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی کسی اچھے پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں داخل ہو۔اس کے رشتے دار یا محلے والے یہ طنعہ نہ دیں کہ فلاں کے بچے محض فیس نہ ہونے کی وجہ سے کسی اچھے تعلیمی ادارے میں داخل نہ ہو سکے۔صرف ابتدائی تعلیم ہی نہیں یہ خاندان اپنی ساری خواہشات ترک کر کے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے بہترین جامعات میں بھیجتے ہیں جہاں سے وہ پی ایچ ڈی کر کے آتے ہیں لیکن اس کے بعد کی زندگی ان کے لیے زیادہ مشکلات کا باعث بنتی ہے۔پی ایچ ڈی کر کے کلرک کی نوکری کے لیے اپلائی کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں بھی وہ اس لیے فٹ نہیں ہو پاتے کہ کلرک کی آسامی کے لیے بنیادی تعلیمی قابلیت علیٰحدہ سے مقرر ہے۔ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ایم اے،ایم ایس سی اور ایم فل جیسی ڈگریوں کے حامل نوجوان ایک پروقار تقریب میں ڈگریاں لے کر گھر آجاتے ہیں لیکن پھر جو ذلت انہیں اٹھانی پڑتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ایک خاندان کی ساری زندگی کی کمائی چند بچوں کی پڑھائی پر لگ جاتی ہے،جب بچے ڈگری لے لیتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہا”آپ کے خاندان کی سیاسی وابستگی چونکہ دوسری سیاسی جماعت سے ہے اس لیے آپ اس مشتہر کی گئی آسامی کے اہل نہیں ہیں“۔یہ تو صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔اگر آپ کے خاندان میں کوئی بااثر بیورو کریٹ نہیں،سیاستدان نہیں یا کوئی اور”اہلیت“ نہیں تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آزاد کشمیر میں جامعات کی تعداد پانچ ہو گئی ہے جہاں سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ڈگریاں لے کر فارغ ہوتے ہیں لیکن اب تک سوائے کلرک اور ہیڈکلرک پیدا کرنے کے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔مضمون کے ابتداء میں جو شعبہ جات لکھے گئے ہیں جو صرف”ان پڑھ“ ہنر مند وں سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔کیا جامعات ان شعبہ جات میں سے بعض میں بی ایس، بی اے کے ڈگری کورسز نہیں چلا سکتے۔مثلاًایک اچھے شیف کی پوری دنیا میں اس وقت تک ضرورت رہے گی جب تک انسان کھاتا پیتا ہے،بی ایس شیف،بی ایس بیوٹی پارلر،بی ایس گائیکی (یعنی قوالی کورس)،ڈپلومہ برائے باڈی میکر،ڈپلومہ برائے ٹائر ریپیرنگ،جیسے دیگر درجنوں کورسز کروانے میں آخر کیا رکاوٹ ہے۔اگر ایک ڈگری ہولڈر ”قوال گروپ“اپنی پرفارمنس دے گا تو زیادہ اچھے طریقے سے نہ دے گا۔ایک ڈگری ہولڈر شیف زیادہ اچھے طریقے سے اپنے خاندان کا سہارہ نہ بن سکے گا،ایک ڈپلومہ ہوڈر یا ڈگری ہولڈر اپنے گاہک سے زیادہ اچھے طریقے سے ڈیل نہیں کرے گا۔یہ اور اس سے ملتے جلتے کورسز دنیا بھر کی جامعات میں کروائے بھی جاتے ہیں لیکن غریب ممالک کی جامعات کی سوچ ”غریب پرور“نہیں ہے۔آج بھی ان جامعات میں وہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو پچاس سال پہلے پڑھائے جاتے تھے اس وقت ان کی اہمیت یقینا ہوئی ہو گی لیکن آج کے دور سے وہ بلکل مماثلت نہیں رکھتے۔موجودہ وقت کے تناظر میں جامعات کو اپنی پالیسی بدلنی ہو گی، اور ایسے شعبہ جات کھولنے ہوں گے جو کلرکوں کی بجائے ہنرمند بنانے میں مدد گار ثابت ہوں۔حکومتوں کو بھی بیروزگاری ختم کرنے کے لیے اس طرح کے”ٹاسک“ پورے کرنے ہوں گے ورنہ ان جامعات سے فارغ ہونے والی اس ”بے روزگار فورس“ پر ان”ان پڑھ“ ہنرمندوں کی فوقیت برقرار رہے گی کیونکہ وہ زیادہ باعزت طریقے سے زندگی گذار رہے ہیں اور وہ اپنے خاندان کو خوشحال بنانیکے ساتھ ساتھ خطے میں بے روزگاری ختم کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ہمیں ان پر فخر ہے۔ |