پتھر کا زمانہ

ہم میں سے بیشترلوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ دنیا کا پہلا تحریر شدہ ضابطہ قانون کب اور کیسے لکھا گیا اور کہاں موجود ہے ا سکے لئے تاریخ کی کتابوں کو کھنگالناپڑتاہے دراصل آج کے مسائل در مسائل کے مارے لوگ اس زمانے میں ایسی باتوں کی طرف کم کم توجہ دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک خشک موضوع ہے یا پھر اس طرف خشکی کے مارے لوگ ہی متوجہ ہوتے ہیں اس وقت پتھرکازمانہ تھا لیکن لو گوں کے دلوں میں کچھ نہ کچھ انسانیت تھی آج جدید دور ہے مگر انسانیت کسی کسی میں ہے اب تو دلچسپی اسی کے ساتھ ہے جس سے مفادات وابستہ ہیں بہرحال بات تو پھربھی دلچسپی کی ہے بہرحال ذرا دلچسپی ہوتو آپ بھی اپنی معلومات میں گراں قدر اضافہ کرسکتے ہیں پیرس کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر لوور میں پتھر کی ایک لاٹ شیشے کے ایک بکس میں محفوظ کی گئی ہے۔ یہ لاٹ غالبا اس عجائب گھر کا سب سے نادر اور نایاب مخطوطہ ہے۔ یہ لاٹ تقریبا آٹھ فٹ لمبی اور تین فٹ موٹی ہے۔ اس کے بالائی حصے پر انتہائی بامعنی منظر کندہ کیا گیا ہے، جس میں بابل کا سب سے اہم دیوتا مردوک بڑے جاہ و جلال کے ساتھ ایک تخت پر رونق افروز ہے۔ اس کے سامنے بابل کا حکمران حمورابی نہایت ادب سے کھڑا ہے۔ وہ دائیں ہاتھ سے دیوتا کو سلام کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کو اپنے پیٹ پر رکھے ہوئے ہے۔دیوتا مردوک اسے ضابطہ قانون یا ضابطہ قوانین کا تحفہ عطا کر رہا ہے جو لاٹ کے بقیہ زیریں حصے پر عکادی زبان میں کندہ ہے اس زبان کو دنیاکی قدیم ترین زبان ہونے کااعزازبھی حاصل ہے۔ یہ نادر و نایاب مخطوطہ جو پتھر کی ایک لاٹ پر کندہ ہے، دراصل حمورابی کا ضابطہ قانون ہے جسے کئی مورخین دنیا کا پہلا تحریر شدہ ضابطہ قانون بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں چونکہ چھاپے خانے اور اخبارات نہیں تھے لہذا سلطنت کے اہم قوانین اور احکامات کو پتھر کی لاٹوں پر کندہ کرا کے مندروں میں یا شاہراہوں پر نصب کر دیا جاتا تھا تاکہ لوگ اپنے حقوق کی قانونی حیثیت سے آگاہ رہیں۔ حمورابی کے ضابطہ قانون کی یہ لاٹ تاریخ کی سب سے پرانی لاٹ ہے۔ یہ بعض مورخین کے مطابق 1750 ق م اور بعض کے نزدیک 1788 ق م میں حمورابی کے حکم پر سیپر کے مقام پر شمس دیوتا کے مندر میں نصب کی گئی تھی۔ بارہویں صدی قبل از مسیح میں عیلام کا بادشاہ اس لاٹ کو فتح کے نشان کے طور پر اٹھا کر اپنے دارالحکومت شوش لے گیا اور وہاں نصب کر دی۔اہل عیلام کے زوال اور شوش کی تباہی کے بعد یہ لاٹ ہزاروں من ملبوں میں دب گئی اور تین ہزار سال تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی۔ 1901 میں فرانسیسی ماہرین آثارقدیمہ کو شوش کی کھدائی میں ہاتھ آئی۔ اتنی لمبی مدت گزرنے کے باوجود حیرت انگیز طورپر محفوظ رہی جبکہ اس لاٹ پر سے فقط چند مقامات سے عبارت مٹی ہوئی ہے تاہم یہ لاٹ ابھی تک اچھی حالت میں ہے۔ کہیں کہیں سے تھوڑی بہت عبارت کے مٹ جانے کی وجہ سے حمورابی کے قوانین کی تقریبا 35 شقین یا دفعات ضائع ہو گئی ہیں۔ لیکن چونکہ اس ضابطے کی کئی اور نقلیں بھی کئی دوسرے مقامات سے بازیاب ہو چکی ہیں، اس لیے ان کی مدد سے حمورابی کا یہ ضابطہ مکمل طور پر مرتب کر لیا گیا ہے۔ اس ضابطہ میں کل 282 دفعات ہیں۔ ان دفعات کے مطابق اس ضابطہ کا ہر قانون اپنے عہد کے سماجی حالات اور ریاستی تقاضوں کی عکاسی کرتا ہے۔بعض محققین کے نزدیک حمورابی کا ضابطہ قانون تاریخ کا پہلا ضابطہ نہیں ہے بلکہ خود عراق ہی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران اب تک تین اور ایسے ضابطوں کا پتا لگا ہے جو حمورابی سے پیشتر نافذ العمل تھے۔ ان ضابطوں میں سب سے پرانا ضابطہ ار کے شہنشاہ ارنمو کا ہے۔ یہ ضابطہ حمورابی سے تقریبا چار سو برس پہلے وضع ہوا تھا۔ دوسرا ضابطہ قانون ریاست اشنونا میں رائج تھا، اس کی 61 دفعات تھیں، یہ بغداد کے مشرق میں عکادیوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ تیسرا ضابطہ قانون حمورابی کے پیش رو بادشاہ لپت اشتر نے ریاست ایسین میں نافذ کیا تھا۔ اس کی فقط 38 دفعات پڑھی جا سکتی ہیں۔ تاہم حمورابی کا ضابطہ اپنے پیش رووں کے ان ضابطوں سے کہیں زیادہ جامع اور مبسوط تھا۔ اس ضابطہ کا آغاز ایک طویل تمہید سے ہوتا ہے جس میں شہنشاہ نے قوانین کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے۔ ضابطے میں درج حمورابی کے ان قوانین کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔مثلا املاک کے قوانین، لین دین کے قوانین، ضابطہ فوجداری کے قوانین، ازدواجی زندگی کے متعلق قوانین اور غلام و آقا کے تعلقات کے قوانین۔ ان قوانین کے مطالعے سے اس دور کی معاشرتی زندگی کے بہت سے پہلو روشن ہو جاتے ہیں۔ مثلا یہ پتا چلتا ہے کہ بابلی لوگ محلوں اور معبدوں سے وابستہ طبقوں کے علاوہ معاشرے کے بہت سے طبقات میں بٹے ہوئے تھے۔ ان طبقات میں سے چار اہم طبقات یہ تھے۔ اشرافیہ(ادیلو)، مشکنو، غلام(وردو)اور عام شہری مثلا تاجر، کاریگر، زمیندار، کاشتکار، باغبان، مزدور، گڈریے اور ملاح وغیرہ۔ اشرافیہ سے مراد شاہی خاندان کے افراد اور امرا تھے۔ مشکنو وہ طبقہ تھا جس کو(جیسے فوجی)خدمات کے عوض جاگیر اور دوسری مراعات حاصل تھیں۔ غلام عام طور پر جنگی قیدیوں میں سے بنائے جاتے تھے یا پھر سود کی وجہ سے مقروض لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ لیکن غلام آزادی حاصل کر سکتے تھے۔ اس عہد میں سزا اور جزا کا تعین سماجی رتبے کے لحاظ سے کیا جاتا تھا۔ مثلا ایک ہی جرم کی سزا غلام کے لیے ایک آزاد شہری کے مقابلے میں کہیں سخت اور زیادہ تھی۔ شاید ہندو معاشرہ نے یہیں سے اپنے قوانین مستعارلئے تھے یاپھر حمورابی ضابطے ان سے ملتے جلتے تھے یہاں ہندوؤں کی طرح حمورابی کے ان قوانین میں سب انسان برابر نہیں تھے برصغیرمیں بھی ایسے ہی قوانین نافذ تھے اب تو کافی حالات بدل گئے ہیں پھربھی آج بھی دنیا کے طبقات زدہ سماجوں کے بعض قوانین کی نظر میں تمام انسان برابر نہیں۔حمورابی کے قوانین میں سزا کی دو قسمیں تھی۔ جسمانی سزا اور مالی سزا۔ جسمانی سزاوں میں سب سے بڑی سزا موت تھی، جو کم از کم 35جرائم پر دی جاتی تھی۔ یہودیوں کے قانون کی مانند حمورابی کے عہد میں بھی جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون رائج تھا مگر اس کے ضابطے میں بعض ایسے قوانین بھی ہیں جو صرف زبانی جرائم کے خلاف بھی سزائیں تجویز کرتے ہیں۔ مثلا اگر ایک بیٹا باپ سے کہتا کہ تم میرے باپ نہیں ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جا سکتا تھا۔ اتنے قدیم زمانے میں بھی مکان کرائے پر دئیے جانے کا رواج تھا۔ آج کل کی طرح اس زمانے میں بھی مکان کرائے پر دینے سے پہلے کرایہ نامہ لکھوایا جاتا تھا۔ اس کرائے نامہ پر مالک مکان، کرایہ دار اور گواہان کے دستخط ہوتے تھے۔ حمورابی کے عہد کی ایک لوح ایسی ملی ہے جس پر ایک کرایہ نامہ کندہ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے قدیم تحریری کرایہ نامہ تسلیم کیا جاتاہے۔ قرض اور سود کا چلن بھی عام تھا۔ قرض دار اگر قرضہ نقد ادا نہ کر سکتا تو اس کے عوض مساوی مالیت کا اناج بمعہ سود جس کی شرح بیس فیصد رائج تھی، ادا کر سکتا تھا۔ اگر کوئی قرض خواہ اپنے قرض دار سے اس سے زیادہ سود وصول کرتا اور یہ عدالت میں ثابت ہو جاتا تو تمام قرضہ ساقط ہو جاتا تھا۔ خیانت مجرمانہ ثابت ہو جانے پر خائن کو پانچ گنا جرمانہ ادا کرنا پڑتا۔ البتہ اناج کی خیانت کی سزا صرف دو گنا تک تھی۔لین دین کے مقدمات میں گواہوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ایسا کوئی مقدمہ قابل سماعت نہ تھا جس میں چشم دید گواہ موجود نہ ہو۔ ضابطے کے مطابق بابلی معاشرے میں شادی بموجب ایک معاہدہ تھی۔ شادی سے پہلے اگر اس معاہدے کا معاملہ باقاعدہ طور پر طے نہ پاتا تو عدالت شادی کو تسلیم نہ کرتی تھی۔ مرد اور عورت دونوں کو طلاق کا حق حاصل تھا اور طلاق بھی باقاعدہ طور پر تحریری ہوتی تھی۔ چنانچہ طلاق نامے پر مشتمل ایک لوح بھی اثریاتی کھدائیوں میں برآمد ہوئی ہے۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی اجازت نہ تھی۔ جہیز عورت کی ذاتی ملکیت تصور ہوتا تھا۔ اگر کوئی عورت بے اولاد مر جاتی تو اس کا جہیز اس کے والدین کو واپس کر دیا جاتا تھا۔ جائیداد نرینہ اولاد میں برابر تقسیم کی جاتی جبکہ خواتین کا حصہ ان کی شادی کے موقع پر جہیز کی صورت میں دیا جاتا تھا۔قانون تعمیرات کی رو سے نیا تعمیر شدہ مکان اگر معمار کے غلط تعمیر کرنے یا اس کی لاپروائی سے گر جاتا تو دوبارہ تعمیر کے اخراجات معمار سے وصول کیے جاتے۔ اگر کوئی مکان تعمیراتی نقص کی وجہ سے گر جاتا اور مالک مکان اس میں دب کر مر جاتا تو معمار کی سزا موت تھی اور اگر مالک مکان کا بیٹا اس میں دب کر ہلاک ہو جاتا تو پھر معمار کے بیٹے کو قتل کیا جاتا تھا۔ ہڈی جوڑنے اور عمل جراحی کے دیگر آپریشنوں کی باقاعدہ اجرت مقرر تھی۔ مویشیوں کے علاج کے لیے بھی باقاعدہ پیشہ ور طبیب ہوتے تھے اور ضابطے میں ان کی اجرت بھی دی گئی ہے۔ اگر کوئی مویشی جراح کے ہاتھوں دوران عمل جراحت مر جاتا تو جراح کو جانور کی چوتھائی قیمت چکانا پڑتی تھی۔ حمورابی کے اس ضابطہ قانون کا اختتام اس کے ان خودستائی کلمات پر ہوتا ہے۔ میں نے دشمن کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا میں نے جنگ کا خطرہ ختم کر دیا۔ اپنی رعایا کو پرامن بستیوں میں آباد کیا تاکہ وہ دوستانہ زندگی بسر کر سکیں۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ جو ان پر دھونس جماتا عظیم دیوتاوں نے مجھے حکم دیا۔ پس میں وہ مہربان گڈریا بنا جس کے عصا میں خیر ہے۔ میرا سایہ رحمت میرے شہر پر ہے۔ میں نے ارض سومیر و عکاد کے باشندوں کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ میں نے ان پر ان سے حکومت کی۔ میں نے اپنی طاقت سے انہیں ہر آفت سے بچایا۔ اس معاشرے میں سماجی انصاف کیلئے بہت سے قوانین موجود تھے جس سے ثابت ہوتاہے حمورابی عہد میں بھی آج کے جدید طرز معاشرت کی خوبیاں اتم موجودتھیں۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 335623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.