جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں جنّت میں چراغاں نہیں ہوتا
سال بہ سال ٦ ستمبر جس فتح پہ ہم چراغاں کرتے ہیں, جوش و خروش سے دیے روشن
کرتے ہیں, اس شمع کی لو کو جلانے میں جانے کتنے شجاعت کی داستانیں رقم کرتے
اپنا لہو اس خاک میں ملاتے جوان جامِ شہادت نوش کر گۓ تو کتنے ہی غازی فتح
کا تاج پہن کر لوٹے تو جہاں اہلِ وطن کے قلب افواج کی محبت سے لبریز ہوۓ,
بسجود اللّہ کے شکرانے کے موتی بہاۓ گۓ تو وہیں دنیا پہ بھی دھاک بٹھائی کہ
ہم سے ٹکڑانے کی غلطی نہ کرنا... ورنہ... نتیجہ سامنے ہیں.
آج کی قوم کے لیے افسوس 1965 ایک قصے کی ثانوی حیثیت رہ گیا ہے... ورنہ
درحقیقت یہ ہمارے تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے جس نے اس کرۂ ارض پہ پاکستان
کی مسلم حقیقت کو ظاہر کیا تو مضبوط دفاعی نظام کا لوہا منوایا.
~ اس قدر تیزی سے تو روۓ زمین پر چھا گیا
فلسفی چکرا گئے, تاریخ کو غش آگیا
پچپن برس قبل جب قوم محوِ خوابِ خرگوش تھی, کہ عیار و بزدل دشمن نے رات کی
تاریکی میں نقب لگائی. بھارت نے تمام اخلاقی و بین الاقوامی قوانین کو بلاۓ
طاق رکھتے ہوۓ جیالوں کے شہر لاہور کو اپنی گولہ باری کا زد بنایا. مگر اس
تاریکی میں بھی مادرِ وطن کے پرعزم جوان, محافظِ پاکستان کفر کے مد مقابل آ
کھڑے ہوۓ اور عیاروں کے دانت کھٹے کردیے... اور نہ صرف فوج بلکہ صدرِ
پاکستان جنرل ایوب خان کے ایمان افروز, حبِ وطنی سے سرشار خطاب نے جہاں
اہلِ وطن کے دلوں کے تاڑ کو چھیڑا کہ اعلان جنگ کا سنتے ہی کیا بچہ, کیا
بوڑھا سب نکل کھڑے ہوۓ, ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگے کیا, تو وطن کی
بیٹیوں نے طبی کیمپ لگا لیے. ہر آنکھ بے خوف و خطر اپنے بس میں جو تھا وہ
کرنے پہ لگی ہوئی تھی... آن ہی آن میں خیمے اشیاء خوردونوش سے بھر گۓ تو
خون دینے والوں کی نہ ختم ہونے والی قطار سج گئی, مسجدیں آباد ہوگئیں, تو
ماؤں کے سجدے لمبے ہوگۓ. دشمن کے لیے ان کی یہی للکار تھی کہ...
میرے آباء کے لہو سے رنگ کر زرخیز جو زمین ہوئی
سرسبز اس چمن کو اجاڑنے کی تو نے سوچی کیسے
اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے, قائدِ اعظم کی ایمان, اتحاد, تنظیم,
اور یقینِ ملت پہ عمل پیراء ہوۓ پاکستانیوں نے غیور قوم کا ثبوت دیا اور
قوم کے رکھوالوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ایسی سییسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی
جس سے ٹکڑا دشمن پاش پاش ہوگۓ.
بھارت یہ بھول چکا تھا کہ اسنے لا الہ الا للّہ پڑھنے والوں کو للکارا ہے
جو وطن کی بقا و سلامتی کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں
کرتے. یہ وہ قوم جن کے خمیر میں ہی نہیں دشمن کے سامنے سر جھکانا. یہاں کے
جری جوان ایسے ہیں کہ...
مردِ سپاہی ہے وہ, اس کی زِرہ لا الہ
سایہِ شمشیر میں اس کی پنہ, لا الہ
دشمن جب مادرِ وطن کی عزت کی طرف ہاتھ بڑھاۓ تو دھرتی کے بیٹوں کی غیرت پہ
پل بندھے رہنا ناممکن ہے اور ایسا ہی کچھ اس 17 روزہ جنگ میں ہوا تھا جب لا
الہ الا للّہ اور اللّہ اکبر کی صدا لگاتے, وطن کے بیٹوں نے سر پر کفن
باندھے بہادری, دلیری اور شجاعت کے وہ باب رقم کیے کہ..
~ عقل ہے محو, تماشاۓ لبِ بام ابھی
اپنے سے کئی بڑا ملک, دفاعی جنگجو اسلحہ کی زیادتی, اور کئی گنا افرادی
لشکر لے کر بھی جب شب خون مارے تو ہم جیسے چھوٹے ملک کا وجود ہی نہ رہتا.
یہی سوچ کر بھارت نے جارحیت دکھائی تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس قوم کے
محافظ وہ بہادر سپوت ہیں جن کے بڑھتے ہوۓ, ڈتے ہوۓ قدم ایسے تھے جو ایک
مرتبہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اُٹھ جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں
تھام نہ سکتی ہے. پاکستان کا دفاع کرتے ہوۓ وہ مجاہد تھے جن کے پاس قوت تھی
سچائی کی, سرمایہ تھا ایمان, یقین تھا ذاتِ الٰہی پر, یکجہتی تھی قوم کی,
دعائیں تھیں ماؤں کی تو پھر کیونکر ان کے حوصلے پست ہوتے... وہ تو دشمن کو
پسپا کر, ہزیمت کا سامان بنانے چلے تھے.
~ تم ہی سے اے مجاہدو جہان کا ثبات ہے
جہاں واہگہ باڑدڑ لاہور سیکٹر پہ میجر عزیز بھٹی جیسے بیٹے اپنے یونٹ کے
ساتھ بنا نیند بنا آرام کے سات سن لگاتار چوکنا دفاعِ وطن کے لیے پیش پیش
رہے اور کہ 12 ستمبر کو جان کا نذرانہ دے کر شہادت کو گلے لگالیا مگر ارضِ
عزیز پہ دشمن کا قدم قبول نہ کیا.
وہ مجاہد مادرِ وطن کے ایسے سپوت تھے کہ ہندوستان کے اہم محاذ, چونڈہ سیکٹر
پہ جرأت و دلیری کی وہ مثال قائم کی کہ فولادی ٹینکوں کے سامنے بارود کے
گولے باندھے لیٹ گۓ اور بھارتی فوج اور ٹینکوں کا شمشان گھاٹھ بنادیا.
پاک فضائیہ کے شاہینوں نے کھیم کرن اور چونڈہ میں شکست کے بدلے میں دشمن کے
سرگودھا بیس حملے کا پلک جھپکتے وہ جواب دیا کہ سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم
صرف ایک منٹ میں دشمن کے پانچ جنگی طیاروں کو تباہ کر کے غازیوں کی صف میں
شامل ہوئے تو دوسری جانب سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی جرات و جانبازی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگئے مگر مادرِ ملّت کو حیات کی نوید سنا
گۓ.
وہیں ہماری بحری فوج کی کارکردگی بھی قابلِ ذکر ہے جہاں انہوں نے کراچی
بندرگاہ کا بہترین دفاع کیا وہیں ہماری بحری آبدوز " غازی" بھارتی "دوارکا"
پر حملہ آور ہوئی اور دشمن کے سب سے بڑے ریڈار سسٹم کو ریزہ ریزہ کیا جو
ہمارے فضائی حملوں میں رکاوٹ بن رہا تھا. "غازی" نے دشمنوں پہ دہشت کی وہ
دھاک جمائی کہ کسی کی جرأت ہی نہ ہوئی کہ اپنی پناہ گزینوں سے نکل کر
مدمقابل آۓ.
کئی مواقعوں پہ اسلحہ نہ ہونے کے باوجود بھی محافظِ پاکستان نے دشمنوں کو
زمین کی خاک چٹوادی اور پسپائی کو انکا مقدر بنا دیا اور ثابت کیا..
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
افواجِ پاکستان نے, پاکستان کا دفاع تو بخوبی کیا ہی کیا, کہ لاہور کے جم
خانے میں عیش و عشرت کا محفل سجا کر ناشتہ کرنے کو دشمن کو خواب کو نہ صرف
چکنا چور کیا بلکہ اٹھارہ سال بعد بھارتی فضاؤں میں ایمان افروز اللّہ اکبر
کی صدائیں بلند ہوئیں کہ دھرتی کے بیٹوں نے باآواز بلند کہا...
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بہرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
٦ ستمبر ہماری تاریخ کے اس درخشاں باب کی یاد کو تازہ کرتا ہے جب قدم سے
قدم ملا ہماری افواج اور قوم نے مسلسل 17 روز کی بھارتی جارحیت کے خلاف
اپنی آزادی اور قومی مفاد کا دفاع کیا تھا. یہ تاریخ وقف ہے ہماری بہادر
اور دلیر بری, بحری اور فضائی افواج کی لازوال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش
کرنے کے لیے کہ
اے راہِ حق کے شہیدوں, وفا کی تصویروں
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
آج یہ فخر کا تہوار ہم سے تقاضہ کرتا ہے کہ ہم 1965 کے اسی سماں کی ریت میں
پلتے ہوۓ قربانی, و جہاد کے جذبات کو اجاگر کریں, سرفروشی کو بیدار کریں کہ
وہی حوصلہ, وہ شجاعت, اس دلیری کی آج مسلمانوں کو اشد ضرورت ہے کہ ظلم و
غلامی کی چکی میں پستے اپنے مسلمان بھائیوں کو کفار کی زدکوب سے آزاد
کرائیں.
ان شاء اللّہ
|