انسانی سوچ کا محور معاشرے،ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔جیسا
معاشرے اور ماحول ہوگا ،ویسی ہی سوچ پنپنا شروع ہوجائے گی۔ہر تصویر کے دو
رخ ہوتے ہیں،اسی طرح ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک مثبت پہلو اور دوسرا
منفی پہلو۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم اقوام عالم میں ایک منفی سوچ رکھنے والی
قوم تصور ہوتے ہیں۔من حیث القوم ہم میں منفی سوچ ،ایک زہر کی طرح سرائیت
کرچکا ہے۔لوگ ہر معاملے کو مثبت پہلو سے سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے
جارہےہیں۔
کسی بھی معاشرے کے زوال پزیر ہونے کی وحد نشانی منفی سوچ ہے۔منفی سوچ سے
انسانی صلاحیتوں کو گھن لگ جاتا ہے۔جس معاشرے میں تعمیری تنقید کو نہ
برداشت کیا جائے،وہ معاشرہ اپنے آپ کو جہالت کی چار دیواری میں مفقل و مقید
کرلیتا ہے۔ منفی سوچ رکھنے والا معاشرہ جہالت کی اٹا ٹوپ گہرائیوں میں ڈوب
جاتا ہے۔قدرت ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین لیتی ہے۔
قدرت نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔لیکن یہ اپنی ان صلاحیتوں کو
ضائع کرنے پر تلا ہوا ہے۔جس کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔تعمیری تنقید کو
برداشت کرنا،لاجک، دلیل کو اپنی گفتگو میں بنیاد بنا کر رکھنا،سوچنے اور
اظہار کی آزادی دینا ترقی یافتہ معاشروں کا خاصہ ہوا کرتا ہے۔
ہمیں اگر معاشرے کو زوال کے کھڈے سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں تعمیری و مثبت
سوچ کو پنپنے کی اجازت دینا ہوگی۔ورنہ بقول ڈاکٹر مستفیض احمد علوی کے"ہم
بحیثیت مجموعی قوم زوال کی کھائی میں اس رفتار سے گر رہیں ہیں کہ اگر کوئی
ہمیں روکنا چاہے بھی تو نہ روک سکے گا"
اں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کو منفی سوچ سے کسی طرح چھٹکارا دلایا
جائے؟ جواب سادہ سا ہے،اس قوم میں ناشکری،حسد، بغض،کینہ کو ختم کیا
جائے۔تعلیم کے ساتھ تربیت پر زرو دیا جائے۔ہم میں تربیت کا فقدان ہے۔علم کی
شمع کو جلایا جائے۔ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں تعلیم تربیت کو امتیازی
حیثیت حاصل ہو۔معاشرے کے اہل علم لوگوں کو نسل نو کے اخلاقی تربیت کی زمہ
داری سونپی جائے اور حکومتی سطح پر سرپرستی کی جائے۔دنیا کے دوسرے ممالک کی
نسبت ہمارے پاس نوجوانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ ہے۔اب اس سونے کو بھٹی سے
گزار کر ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
کتب کا مطالعہ انسان کی سوچ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا
ہے۔میڈیاایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے زریعے ہم اپنے معاشرے میں مثبت سوچ پیدا
کرسکتے ہیں،اس کے لیے ہمیں میڈیا میں بھی اچھی اور تعمیری سوچ کے لوگوں کو
شامل کرنا ہوگا۔مغربی دنیا میں اب بھی لوگ کثرت سے کتب بینی کرتے ہیں ۔
لائبریریاں لوگوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ان کے کتب خانے شاندار ہوتے ہیں
اور ہمارے کتب خانوں میں گرد کی دبیز تہیں جمی ہوئی ہوتی ہیں۔
ہمیں اگر معاشرے میں جینا ہے تو کتاب سے تعلق جوڑنا ہوگا۔منفی سوچ کو چھوڑ
کر مثبت سوچ اپنانا ہوگی۔تاکہ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر دین اور
ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔ہمیں دونوں آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی تاکہ ہم
لوگوں کی کوتاہیوں پر رونا نہ روئیں بلکہ ان کی خوبیوں پر نظر رکھیں۔خامیوں
کو نظر انداز کریں،حوصلہ افزائی کریں،پھر دیکھیں یہ قوم اقوام عالم کی کیسے
قیادت کرتی ہے۔
آج ہم تہیہ کریں کہ آئندہ کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں
گے۔انکی خامیوں کو لے نہ بیٹھیں گے۔حسد ،بغض،کینہ اور ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچنا بند کردیں گے۔لاجک اور دلیل سے بات کریں گے۔غیر متعلقہ معاملات میں
ٹانگ نہیں اڑائیں گے۔ لوگوں کے ایشوز کو خواہ مخواہ اپنے ذہن پر سوار نہ
کریں گے۔ کسی بھی معاملے کے دونوں پہلوؤں کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔بے جا
کسی پر تنقید نہ کریں گے،پھر دیکھیں کسے مثبت اور تعمیری سوچ پیدا ہوتی
ہے۔منفی سوچ ایک عذاب ہے جس سے ہمیں جان چھڑانا ہے۔یہ ایک دیمک کی طرح
ہمارے معاشرے کی صلاحیتوں کو چاٹ رہی ہے۔
|