یہ مسلمہ حقیقت ہے انسان جب کسی زبان کو سیکھنا شروع کرتا
ہے تو اس کی مادری زبان کے اثرات لازمی طور پر ہوتے ہیں۔اصولی طور پر جب
کسی زبان کو سیکھا جاتا ہے تو اس زبان میں کسی اور زبان کی جھلک تک نظر نہ
آئے۔
زبان کا لہجہ،تلفظ،محاورات،تمثیلات،ضرب الامثال،اصول و قواعد اسی زبان کے
اصلی حالت میں ہی ہوں۔اگر دوسری زبانوں کے اصول و قواعد کو گڈمڈ کردیا گیا
تو زبان کو اپنی بقاء رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اردو زبان ہماری قومی زبان ہے۔ظاہر ہے تحریر بھی اسی زبان میں سیکھنا ہے۔اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو کو اس کے خالص لہجے میں کیسے سیکھا
جائے؟دراصل ہم جب کسی دوسری زبان کو سیکھتے ہیں تو پہلے ہم اپنی مادری زبان
میں سوچتے ہیں پھر اس کو اردو میں تبدیل کرتے ہیں۔یہ سارا کام ہم بیک وقت
ہم اپنے ذہن میں کررہے ہوتے ہیں۔جن کی مادری زبان پنجابی ہے وہ پنجابی میں
سوچتے ہیں اور جن کی پشتو،سندھی،بلوچی،براہوی،میواتی ہے وہ اپنی مادری زبان
میں سوچ کر اسے اردو میں (convert)کرتے ہیں۔
اس پریشانی کا حل یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ہم سوچیں بھی اردو میں۔اگر اس
مشق میں ہم پختہ ہو گئے تو ہمارے لئے اردوسیکھنا آسان ہو جائے گا۔اس کے لیے
ہمیں دبستان لکھنو،دبستان دہلی کا مطالعہ کرنا ہوگا۔اس صدی کے
مشہور،ادیبوں،فکشن نگاروں،مصنفین،ڑارامہ نگاروں،کہانی کاروں،قلم کاروں کو
پڑھنا ہوگا۔
ویسےبھی کب کسی زبان و ادب کو سیکھا جاتا ہے تو وہاں کے معاشرے کے حالات
کامطالعہ کیا جاتا ہے۔لامحالہ اس معاشرے کے اثرات کو انسان قبول بھی کرتا
ہے۔جیسے انگریزی ادب سیکھنے والے زیادہ تر انگریزی کلچر کو ارڑھنا بچھونا
بنا لیتے ہیں
اردو ہماری اپنی زبان ہے۔لشکری زبان ہے۔ہمارے اپنے کلچر کے اثرات ہیں،ہمیں
دل و جان سے سیکھنا چاہیے۔جب تک دوسری زبانوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے گی
اس وقت تک اردو زبان خالص ترین زبان نہیں ہوسکتی۔
ہم بحثیت قوم آج تک اپنی قومی زبان کی تطہیر کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے
ہیں۔اس لحاظ سے ہم ایک بد قسمت قوم ہیں کہ ابھی تک ہم انگریز سے آزادی حاصل
کرنے کے باوجود ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔عجیب معاملہ ہے ،دفتری زبان
انگریزی،قومیزبان اردو، علاقائی زبان علاقے کے لحاظ سے اور مادری زبان اپنی
اپنی۔قوم کو عجیب مخمصے میں ڈال دیاگیا ہے۔ملک کی سپریم کورٹ نے نفاز اردو
کا جو حکم صادر فرمایا وہ بھی انگریزی میں تحریر فرمایا۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی تحریر کو اپنی قومی زبان میں شاندار بنا لیں تو
ہمیں اردو کو دل و جان سے قبول کرنا ہوگا۔اس کا گہرائی سے مطالعہ کرنا
ہوگا۔اس کے ادب میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔۔۔۔کیونکہ قوموں کی پہچان زبان سے
ہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ورنہ نہ ہوگی داستانوں ہماری۔۔۔۔۔۔۔۔
|