میں فارغ آدمی ہوں اور فراغت
انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ فارغ آدمی کا دماغ شیطانی
خیالات کا کارخانہ ہوتا ہے۔فارغ آدمی کروٹ بدلنے کے ساتھ ایک نیا شیطانی
منصوبہ سوچتا اور پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔میری
فراغت کے ابتدائی ایام نے جب نئے گل کھلانے اور نئے چاند چڑھانے شروع کئے
تو میرے بیٹے کو بڑی تشویش لا حق ہوئی۔اس نے میری فراغت کا قلع قمع کرنے کے
لئے میرے کمرے میں ایک کمپیوٹر اور ایک کیبل والا ٹی وی لا کے رکھ دیا۔ یوں
میری فراغت تو عنقا ہوئی اور شیطانی خیالات کی ورکشاپ بھی لیکن میں ایک بڑی
شیطانی سلطنت کا حصہ بن کے رہ گیا جہاں مجھ سے بڑے شہہ دماغ اپنی اپنی
چالبازیوں کے جوہر دکھانے کو ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔نیٹ کی دنیا ایک ایسی
دنیا ہے جہاں ہر کاروبار ہوتا ہے۔مذہب،تجارت ،جنگ ،امن ،ثقافت سب کچھ یہاں
موجود ہے اور نہ صرف موجود بلکہ اصل سے بھی بہتر۔اسی طرح ٹی وی وہاں کی بھی
ایک اور ہی دنیا ہے۔کام کے ایام میں تو ہمیں کبھی فرصت ہی نہ ملی کہ خبروں
کے علاوہ کچھ دیکھ پائیں اب جو فراغت میں ٹی وی دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے
کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
ٹی وی پہ ہم کیا بلکہ کیا کیا دیکھتے ہیں اس کا ذکر پھر سہی لیکن ایک چیز
جو ہم اپنی پسندیدہ چیزوں کے درمیان وقفے میں دیکھتے ہیں وہ ہے جانوروں
والا چینل۔اس میں ہر طرح کے جانور ان کے رہن سہن اور رویوں کے بارے میں
بتایا جاتا ہے۔کبھی کبھار گوروں سے جانوروں کی محبت کے بارے میں بھی ۔جس
میں محبت کی فراوانی اور گوروں کا جذبہ ترحم دیکھ کے ہم یونہی فضول سی سوچ
سوچنے لگتے ہیں اور بقول وصی شاہ،کاش میں بوٹسوانا کے جنگل کا ہاتھی ہوتا
قسم کی دھنیں ہمارے ہونٹوں سے سیٹی کی صورت برآمد ہونے لگتی ہیں۔پاکستان
میں رہتے ہوئے اور اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس چینل پہ شیر چیتے
اور اسی قبیل کی دوسرے جانور بہت بھاتے ہیں ۔اس لئے کہ وہ جنگل کے باقی
جانوروں کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو دنیا ہمارے ساتھ کر رہی ہے۔یوں
ہمیں ان درندوں کے اس وحشی پن کی وجہ سے تنہائی کا احساس نہیں ہو پاتا۔ہمیں
لگتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی دوسری مخلوق بھی ہے جس کے ساتھ ہمارے والا
سلوک کیا جا رہا ہے اور یوں ہم ان مناظر سے ازلی سکون کی کشید کرتے رہتے
ہیں۔
آج شام لیکن عجب حادثہ ہوا۔ہم نے جونہی ٹی وی آن کیا تو ہمارا پسندیدہ چینل
ایک بھوکے شیر کو فوکس کئے ہوئے تھا۔ہمارے تو گویا دل کی کلی کھل گئی۔ہم نے
اپنی نظریں سکرین پہ گاڑ دیں اور انتظار کرنے لگے کہ ہمارا ممدوح اب کس کا
انتم سنسکار کرے گا۔شیر شاید تھکا ہوا تھا اس نے بہت سے جانوروں کا پیچھا
کیا لیکن شاید یا تو شیر بہت بوڑھا اور تھکا ہوا تھا یا پھر پھر دوسرے
جانور کسی دوسری طاقت کے اشارے پہ ناچ رہے تھے انہوں نے شیر کے دانتوں اور
پنجوں میں اپنا سر رکھنے سے یکسر انکار کر دیا۔شیر یوں تو جنگل کا راجہ ہے
لیکن بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو اسے بھی بے غیرتی اور بے حیائی کی آخری
حدوں تک لے آتی ہے۔چنانچہ اس نے اس دن بجائے اپنے من بھاتہ کھاجا کھانے کے
ایک جنگلی کتے کے چھوٹے سے پلے کو گھیر لیا۔اس سے پہلے کہ وہ اس کی نازک سی
گردن پہ اپنے خون آشام پنجے گاڑ پاتا نہ جانے کہاں سے پانچ سات جنگی کتے بر
آمد ہوئے اور انہوں نے یکبارگی شیر پہ چاروں طرف سے یلغار کر دی۔شیر نے پلے
کو تو خیر چھوڑا ہی حیران اور پریشان کھڑا ہو کے کتوں کو دیکھنے لگ گیا۔کتے
نجانے کہاں کہاں سے نکل کے نہ صرف وہاں جمع ہو رہے تھے بلکہ ہر طرف سے شیر
پہ حملہ آور بھی تھے۔آخر کار جب ایک کتے نے بڑھ کے شیر کی آنکھ میں اپنا
پنجہ گھسیڑا تو شیر کو دم دبا کے وہاں سے بھاگتے ہی بنی۔جنگلی کتے کافی دیر
وہاں رک کے جنگلی سامراج کی شکست کا جشن مناتے رہے اور آخر جنگل میں گم ہو
گئے۔
ایبٹ آباد اور پی این ایس مہران پہ حملے کے واقعات کے بعد سے میرا فارغ
دماغ مجھے چین کی نیند سونے نہیں دیتا۔کہتا ہے کہ کتے شیر کے منہ سے اکٹھے
ہو کے اپنا پلا بچا سکتے ہیں تو تم انسان ہو کے بھیڑیوں کے منہ سے اپنا وطن
کیوں نہیں چھڑا پاتے۔تمہارے پانچ ہزار کے قریب سیکیورٹی فورسز کے افسر اور
جوان اور پینتیس ہزار کے قریب معصوم اور نہتے سویلین اپنے خون کا نذرانہ
پیش کر چکے لیکن اس کے باوجود تم لوگ آپس میں ہی لڑ رہے ہو ۔ایک دوسرے کو
الزام دیتے ہو۔اپنے ہی اداروں اور اپنے ہی لوگوں کو گالیاں دیتے ہو لیکن
اپنے ارگرد پہ نظر نہیں رکھتے۔مجرموں کی شنا خت چھپاتے ہو ۔جس سے دشمن کو
موقع ملتا ہے کہ وہ تمہاری ریڑھ کی ہڈی پہ وار کرے۔وہ سوال کرتا ہے کہ تم
اچھے ہو یا وہ کتے ۔تم بہادر ہو یا وہ کتے۔تم غیرت مند ہو یا وہ کتے۔تم با
اصول ہو یا وہ کتے؟ مجھ سے جواب نہیں بن پاتا۔ اس لئے کہ کرپشن ،چوری ،رشوت
اور کام چوری جیسے ناسوروں نے میرا جسم ناکارہ بنا دیا ہے ۔پھر مجھے کسی
پرانے فوجی جرنیل کا ایک بھولا بسرا قول یاد آجاتا ہے کہ شیر کی قیادت میں
لڑنے والی بھیڑوں کی فوج ،بھیڑ کی قیادت میں لڑنے والی شیروں کی فو ج سے
زیادہ بہتر ہوتی ہے تو میرا حوصلہ بالکل جواب دے جاتا ہے۔یوں میں اس بات پہ
مجبور ہو جاتا ہوں کہ اپنے دماغ کے سوالوں کو جھٹک دوں۔گو کہ امریکی مجھے
میرے گھر میں آکے ڈرون مارتے ہیں اور میں احتجاج بھی نہیں کر پاتا۔وہ اسامہ
کے نام پہ میرے ملک میں اپنا جہاز اور فوجی لے کے در آتے ہیں اور دوبارہ
آنے کا وعدہ کر کے جاتے ہیں۔ہندو اپنے کارندے بھیج کے ہماری نیوی کی کمر کا
قیمہ بنا جاتے ہیں اور ہم سوائے اپنی آرمی نیوی فضائیہ اور آئی ایس آئی کو
گالیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔اس سب کے باوجود میں اپنے دماغ کو
یہی جواب دیتا ہوں کہ میں جنگل کے کتوں سے بہت بہتر ہوں تو وہ فارغ دماغ
میری بے حیائی پہ قہقہے لگاتا ہے اور میں منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں۔کیا آپ
کا دماغ بھی فارغ ہے اور کیا وہ بھی آپ سے کسی قسم کا کوئی سوال کرتا ہے
؟کیا آپ بھی میری طرح منہ دوسری طرف کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں؟ |