اسلام وعلیکم قارئین میرا نام فرزانہ جبین ہے ۔ میں اس
ملک کی لاکھوں عام عورتوں میں سے ایک ہوں ۔ اور آج اپنی اندر کی آوازوں سے
گبھرا کر آپ سے بات کرنے پر مجبور ہو گئی ۔ اگر آج بھی میں اپنی سوچ کو
خاموش کروا دیتی تو یقیناً بے حسی کے ہجوم میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا۔
یہ تحریر آپ سے زیادہ میں نے خود اپنے آپ کے لیے تحریر کی ہے کہ خود کو
تسلی دے سکوں کہ میں نے بھی آواز اٹھانے کی ناکام ہی سہی کوشش ضرور کی
ہے۔موٹروے پر پیش آنے والا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس کے بارے میں سن
کر رونگھٹۓ کھڑے ہوے ہوں ۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات سن کر کئ بار
آنکھ بھر آئی ۔ پر یقین جانیے اس تازہ واقعہ کا سن کر تو اپنے آپ کا عورت
ہونے پر بہت شرم آئی۔ دل چاہا زمین پناہ دے اور میں اس میں سما جاؤں ۔ یارب
یہ کیا بن دیا ہم عورتوں کو کہ جب جس کا دل چاہے کتوں کی طرح نوچ ڈالے ۔
یارب کیوں اتنا کمزور بنایا حوا کی بیٹی کو کہ ابنِِ آدم ہمیں انسان تو دور
کی بات جاندار بھی نہیں سمجھتا ۔ کوئی ترس بھی کھاتا ہے تو ساتھ ہی قصور
وار بھی بنا دیتا ہے کہ اکیلی عورت کو نکلنے کی ضرورت کیا تھی ۔ قارئین
میرا اسُ معاشرے کے عقل مند مردوں سے سوال ہے کے کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں
کہ ہر وہ عورت یا بچی جس کے ساتھ ایسی حیوانیت ہوئی ہے وہ خود زمہ دار ہے
جو اس کے ساتھ ہوا ؟ کیا یہ انسانوں کی بستی ہے یا یہاں خونخوار درندے بستے
ہئں ؟ قبول کیجئے کہ اس معاشرے میں مرد صرف رشتوں کی حفاظت کرتا ہے اپنی
ماں ،بہن ، بیٹی اور بیوی کی ۔ گھر سے باہر کی ہر عورت اس کے لیے شکار ہے ۔
اس لیے جب جہاں جس درندے کو جو آسان شکار میسر آے گا اس سے وہ اپنی بھوک
مٹائے گا۔ معاف کیجئے گا اگر میرے الفاظ زہریلے ہیں تو یہ زہر میرے اندر
پیدا کرنے والا بھی یہ معاشرہ ہی ہے ۔ تو جناب اگر میری تحریر پڑھ کر آپ سب
یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ یہ انسانوں کی بستی ہے یا جنگل تو
پھر یہ فیصلہ ہو گا کہ یہاں مجرم کو سرِعام پھانسی کا قانون پاس ہونا چاہیے
یا یہ قانون کہ اپنی اپنی عورتوں کو پنجروں میں بند رکھا جاے ۔ یا پھر ایک
اور آسان کام بھی ہو سکتا ۔ وہی جو نبوتِ اسلام سے پہلے ہوتا تھا ۔جی ہاں
ٹھیک یاد آیا آپ کو ۔ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاے۔
میری تمام مرد حضرات سے نہایت آدب سے گزارش ہے کہ ہم عورتوں کے ساتھ ساتھ
یہ آپ مردوں کی مردانگی کے لیے گالی بن گئے ہیں اس طرح کے واقعات ۔ یہ
معاشرہ آپ کا ہے یہاں چلتی بھی آپ کی ہے۔ خدارہ خود پر سے اس گالی کو دور
کریں ۔ آواز اٹھائیں اور مردوں کے بہیس میں چھپے ان درندوں کے ایسی سزا
قائم کروائیں کہ دوبارہ کوئی آپ لوگوں کے لیے کوئی گالی نہ بنے ۔ اپنے اندر
کے محمد بن قاسم کو جگائیں اور یہ جنگ جیت کر حوا کی بیٹی کو ہمیشہ کے لیے
اپنا غلام بنا لیں۔
|