اس دنیا میں انسان انسان نہیں رہتا اگر اس میں انسانیت
نامی چیز کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ میں اپنے پچھلے کالم میں اچھی طرح سے
انسانیت کی تعریف کر چکا ہوں کہ انسانیت کسے کہتے ہیں؟ ہمارے ملک میں دن
بدن ریپ کے بڑھتے واقعات نے ایک عام اور شریف النفس انسان کو ہلا کر رکھ
دیا ہے۔ وہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کرے تو کیا کرے؟ ایک ایسی مملکت جسے اسلام
کے نام پر حاصل کیا گیا۔ جس کا بنیادی مقصد اسلام کو پھیلانا اور اس پر عمل
کرنا تھا۔ آج اس مملکت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید
کوئی بھی دن ایسا نہ ہو جس دن کسی نہ کسی بچے یا عورت کے ساتھ ریپ نہ ہوا
ہو۔اگر بخوبی دیکھا جائے تو الحمدللہ ہمارے ملک میں ہر تین میں سے دو بندے
دین و اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں جس کی مرضی جسے جس وقت کافر قرار دے
اور پھر جس وقت چاہے کسی ٹی وی پروگرام میں اسے مسلمان بنا دے۔ ظاہری طور
پر ہم اتنے اسلام کے فرزند بنے ہوئے ہیں تو یہی اسلام ہمارے عمل سے ظاہر
کیوں نہیں ہوتا؟ اگر ہم اتنے عشق رسول کے دعویدار ہیں تو وہی عشق وہی جذبہ
سیرت رسول پر چلنے میں نظر کیوں نہیں آتا؟ ہم ان کی اصل تعلیمات سے کیوں
پھر گئے ہیں۔ اصل میں قصور ہمارا نہیں کس اور کا ہے۔ جنہوں نے ہمیں نہ ہی
اچھی طرح سے دین و اسلام سکھایا ہے اور نہ ہی اس کے متعلق سچی آگاہی دی ہے
نہ ہی انہوں نے حضور اکرمؐ کا غیر مسلم کے ساتھ رویہ بتایا ہے اور نہ ہی وہ
سزائیں بتائیں جو کہ مختلف جرائم پر اسلام میں دی جاتی تھی۔
ایک تحقیق کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں اب تک 18 ہزار بچوں اور خواتین کے
ساتھ جنسی زیادتی ہو چکی ہے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی جس کا تذکرہ غالباً
11 ستمبر کو بول ٹی وی پر علامہ ضمیر اختر نقوی صاحب بھی فرما رہے تھے کہ
یہ واقعات پاکستان میں بار بار ہو چکے ہیں۔انہیں آخر کیوں دبا دیا جاتا ہے۔
آپ دیکھیں گے کچھ دن اور ہفتے ہم اس پر آواز اٹھائیں گے اور پھر ہم اسے
شاید بھول جائیں گے۔ ہم وہ تمام پوسٹیں سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ختم کر دیں
گے جو اس واقعے کی مزمت کے بارے تھی۔ انسان کو افسوس اس وقت ہوتا ہے جب وہی
لوگ ان بھیانک مسائل پر آواز اٹھا رہے ہوں جو کہ خود اس میں ملوث ہوتے ہیں۔
خدا کی قسم آپ میرے اس وقت کے جذبات و احساسات کا اندازہ نہیں کرسکتے جب
میں نے دنیا نیوز پر ایک عورت کے ساتھ موٹروے پر زیادتی کا واقعہ سنا اگر
ایسے لوگوں کو حیوان کہا جائے پھر بھی لفظ حیوان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا
کیونکہ یہ اس سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔اگر اس ملک میں ہماری آنے والی نسل کی
ماں محفوظ نہیں حتیٰ کہ آنے والی نسلیں بھی تو اس ملک کا اللہ حافظ و ناصر
ہے۔ اس واقعہ کے بعد تونسہ شریف میں ایسا واقعہ پیش آیا۔جیسے میں نے پہلے
کہا یہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا اس عورت کی زندگی اور اس کے
ننھے بچوں کی زندگی پر کیا گزرے گی جن کے سامنے ان کی جنت پر دھاوا بولا
گیا۔ کیا ایسے افراد کی گھروں میں ماں، بہن اور بیٹی نہیں ہوتی؟ یاد رہے
اگر ہمارا یہی حال رہا تو بروز قیامت ہم خود کہیں گے قیامت ضروری تھی۔ یہاں
تو قبرستان میں مردہ عورتوں کے ساتھ بھی ایسے بھیانک فعل کر دیے جاتے ہیں
کیا ان کے ساتھ بھی رات کو پہرہ دار بٹھایا جائے؟
میرے خیال میں ان جیسے تمام واقعات کا سبب ہمارے ملک میں اسلامی اور دنیاوی
تعلیمات کی کمی ہے۔ان جیسے واقعات کا زمہ دار کوئی ایک ادارہ یا فرد نہیں
بلکہ پوری ملت ہے۔ یاد رہے اس وقت ہم دنیا میں پاکستان کا بےحد برا چہرہ
پیش کر رہے ہیں۔گزشتہ کچھ روز پہلے بنگلہ دیش کے ایک جج نے ریپ کے مجرم کو
پھانسی دیتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے۔ یہ پاکستان نہیں بنگلہ دیش ہے کہ اس میں
ہم مجرموں کو چھوڑ دیں۔ ہمیں ان مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے ہر سطح پر
آواز اٹھانا ہوگی۔آج اگر ایسے سانپ ہمارے شہر، قصبہ یا گاؤں کے کسی فرد کے
گھر میں موجود بیٹے، بیٹی یا عورت کے ساتھ شرمناک حرکت کرتے ہیں تو کل یہ
ہمارے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس لیے خدارا ہمیں حکومت وقت سے سرعام پھانسی
کی سزا کے بارے قانون پاس کروانا ہو گا۔ جب تک ایسے افراد اسلام آباد ڈی
چوک پر نہیں لٹکاہے جائیں گے یہ ظلم ہوتا رہے گا۔ہمارے سب مسائل بعد میں یہ
وہ مسئلہ ہے جس نے پوری دنیا بلکہ اللہ بزرگ و برتر کی بارگاہ اقدس میں بھی
ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اسے ہمیں فوراً حل کرنا ہوگا۔ ہمیں پھر سے
ایسا پاکستان بنانا ہوگا کہ جس میں ہماری ماں، بہن، بیٹی اور بھائی کی عزت
محفوظ رہے۔ ایسے جرائم آزاد و خودمختار خصوصاً اسلامی مملکت میں نہیں ہوتے
جو یہاں ہو رہے ہیں۔ اب وقت ہے قانون حرکت میں آئے اور ہمارے معاشرے میں
موجود ایسے گندے کیڑوں کو باہر پھینکا جائے تاکہ یہ قوم پاک و شفاف فضا میں
سکون کا سانس لے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زنا ایک قرض ہے اگر آج کسی کے ساتھ ہم کریں گے
تو کل ہمارے بھائی،بہن،بیٹے یا بیٹی کی صورت میں واپس کیا جائے گا۔
آخر پر ایک شعر کہوں گا۔
نازل کر اب مہدیؑ کو
اب بھیج خدایا عیسیٰؑ کو
دیکھ دجال آزاد ہوئے
اور پھولوں کے کیا حال ہوئے
|