درندوں کا علاج ؟

چند دن پہلے ایک شرمناک واقعہ ہوا جس نے کروڑوں افرادکو ہلاکررکھ دیا سوال یہ پیدا ہوتاہے کیا پاکستان کے چہرے پر کالک ملنے والے پاکستانی ہو سکتے۔۔ نہیں نہیں ۔۔نہیں یہ درندے تو انسان کہلوانے کے بھی حق دار نہیں ہوا کچھ یوں کہ گجرانوالہ سے لاہور جانے والی خاتون کی گاڑی کا پٹرول رنگ روڈ پر ختم ہو گیا جس کے باعث گاڑی رک گئی۔ خاتون باہر نکلی اور 130 پر مدد کی درخواست کے لئے کال کی۔ جواب ملا محترمہ یہ علاقہ موٹروے کی حدود میں نہیں آتا ہم معذرت خواہ ہیں۔بندہ ان عقل کے اندھوں سے پوچھو کیادیبل کونسا حجاج بن یوسف کی حدود میں آتا تھا؟ ہزاروں میل کا سفر طے کر محمد ؒبن قاسم کو ہزاروں کی تعداد میں لشکر دے کر بھیج دیا صرف ایک عورت کی پکار پر کیونکہ اس نے مدد کی درخواست کی تھی وہ مدد کو آیا۔۔کیونکہ ان مسلمانوں میں غیرت تھی۔ بندہ سوچے کیا تیری کیا میری عزتیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ بے شرموں تمہارے اس بوسیدہ سسٹم سے تو بینکنگ سسٹم بہتر ہو جو تمہیں کسی بھی اے ٹی ایم سے تنخواہ نکالنے کی سہولت دیتا ہے۔ ب ! تم سنت نبوی کو تو سمجھ نہیں سکتے اے ٹی ایم کے اصول کو ہی اپنا لیتے کیا تمہاری آنکھوں کے سامنے بازار میں کوئی تمہاری عزت تار تار کردے تو کیا تم حدود کا تعین کرتے پھرو گے؟کہ کیا یہ حدود پاکستان میں نہیں تھی؟ تمہارے لئے کافی نہیں تھا کہ تم بھی انسان ہو مسلمان ہو پاکستانی ہو اور جو تم کو مدد کے لئے پکار رہی وہ حوا کی بیٹی جو پاکستانی ہے فرانس سے آئی ہے اس لحاظ سے وہ مہمان بھی ٹھہری اس نے پھر رنگ روڈ پولیس سے رابطہ کیاا تو یہی جواب ملا کہ 6 ماہ پہلے بننے والا یہ رنگ روڈ ہماری حدود میں بھی نہیں آتا۔ ہمارے حکومتی انتظامات اور سکیورٹی انتظامات کا جنازہ تو اسی وقت ہی نکل گیا تھا جب ایک لاچار مسافر خاتون کو ایک آئینی ریاست کے سب سے ترقی یافتہ شہر لاہور میں موجود سکیورٹی ادارے مدد کی درخواست پر کلین چٹ دے رہے تھے کہ ہم معذرت خواہ ہیں ہم ایک حوا کی بیٹی کی مدد کے لئے نہیں پہنچ سکتے۔ خاتون نے سکیورٹی اداروں سے مایوس ہو کر اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو گھر والے 80 کلومیٹر ددور تھے اسی دوران ننگ ِ انسانیت 2 بھیڑئیے گاڑی کی طرف بڑھے تو خاتون اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اسے کیا خبر تھی لاہور شہر جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی درندے اس طرح سرعام گھومتے ہیں؟ اسے کیا خبر تھی کہ اسی علاقے میں 2 ماہ قبل ایک ڈاکٹر اپنی اسسٹنٹ لیڈی ڈاکٹر کے ہمراہ 5 ڈاکوؤں نے گینگ ریپ کا نشانہ بن چکی ہے اور جن کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن مناسب سزا نہ دی گئی۔ تصور کی آنکھ سے دیکھیں تو ایسے ہی ہوا ہوگا کہ یہ دونوں درندے گاڑی کی طرف لپکے اور خاتون کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ خاتون نے دروازہ نہ کھولا تو ان جنونی درندوں نے وحشت میں دروازے کا شیشہ توڑا اور دروازہ کھول کر چیختی چلاتی خاتون کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور اسی اثناء میں بچے بھی روتے بلبلاتے باہر آگئے انہوں نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا قریبی جھاڑیوں میں لے گئے نہ جانے خاتون نے کتنے ترلے کئے ہوں گے،انہیں اﷲ رسول کے واسطے دئیے ہوں گے، کتنی منتیں کی ہوں گی لیکن روتی، تڑپتی، بلبلاتی خاتوں کی اتنی تذلیل کی انسانیت بھی شرمندہ ہوگئی کیا بیتی ہو گی ان بچوں پر جن کی جنت کو ان کی آنکھوں کے سامنے تار تار کر دیا گیا؟؟ جب بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کا ریپ کیا گیازمین پھٹی نا آسمان گرا۔ خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ان درندوں نے ایک لاکھ روپے کی رقم چھین کر فرار ہوگئے۔ اسی دوران خاتون کے گھر والے اس بتائی ہوئی لوکیشن پر پہنچے تو گاڑی کا شیشہ ٹوٹا تھا اور خون کے چھینٹے پڑے تھے گاڑی میں نہ ہی بچے تھے نہ ان کی ماں۔اہل خانہ نے دونوں پولیس فورسزسے ایک بار پھر کوشش کی لیکن پولیس موقع پر نہ پہنچی۔ اہل خانہ نے خود خاتون اور بچوں کی تلاش شروع کی اور چھان بین کے دوران قریبی جھاڑیوں میں روتے چکی ہے پولیس نے 12 مشکوک بندے پکڑنا کا دعویٰ بھی کرڈالاہے ملزمان کے خاکے بھی تیار ہو گئے ہیں اور امید ہے ملزمان بھی جلد گرفتار ہو جائیں گے؟ لیکن یہ دلخراش واقعہ اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گیا ہے ؟ لیکن کیا ان ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا؟؟۔ کیا اس متاثرہ خاتون کو انصاف مل سکے گا؟؟۔ جن بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماں کو نوچا گیا ، کیا یہ واقعہ ان کے دماغ سے نکالا جا سکے گا؟؟ کیا پولیس آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کر سکتی ہے؟؟ کیونکہ 2 ماہ قبل اسی علاقے میں ایک لیڈی ڈاکٹر عزت سے ہاتھ دو بیٹھی۔ کیایہ واقعہ بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال کی طرح حالات کی بھول بھلیوں میں گم ہوجائے گا۔یقینا وقت پیچھے نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن اگر اسی خاتون اور ان بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان درندوں کو پکڑ کر اسی مقام پر لا کر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جمع کر کے سنگسار کر دیا جائے تو شاید متاثرہ خاتون کو انصاف مل جائے گا۔بچوں نے اگر ریاست ، قانون کی بے بسی کی چیخیں سنی ہیں تو ملزمان کی آہ و پکار بھی سنیں گے۔ آئندہ پھر 10 سال تک ایسا واقع بھی پیش نہیں آئے گا۔۔کیونکہ جب جنرل ضیاء نے 1980 میں اسی طرح ریپ کے ملزمان , کو سرعام پھانسی دی تھی کئی روز تک ان کی لاشیں لٹکتی رہی تھیں تو شنیدہے کہ 10 سال تک ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک پوسٹ میں کہا گیاہے کہ خاتون اور اس کی فیملی فرانس میں رہتے تھے۔ ان کے پاس وہاں کی نیشنیلٹی بھی تھی۔ خاتون کے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان آئی تھی کہ بچے یہیں پڑھیں اور یہیں کے اسلامی کلچر کے مطابق پلیں بڑھیں۔

ایک ایجنسی کے دوست کا کہنا ہے کہ ہم لوگ جس وقت جائے وقوعہ پر پہنچے خاتون پولیس والوں کے آگے گڑگڑا رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ ان لوگوں کو خدا کے واسطے دے رہی تھی کہ مجھے گولی مار دو۔ انہیں ان کے بچوں کا واسطہ دے رہی تھی کہ مجھے مار دو۔ اس کے اس مطالبے پر عمل نہیں ہوا تو اس نے دوسرا مطالبہ سامنے رکھا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ یہاں موجود سب لوگ حلف دیں کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس کے خاندان اور کسی بھی اور شخص کو اس وقوعے کے بارے میں پتہ نہ چلے۔وہ مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتی۔ موجود ایک ایس پی نے خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ یہ وقوعہ بالکل بھی ہائی لائٹ نہیں ہو گا۔ خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی۔ عموما فارنزک سائنس ایجنسی والے ایسے مواقع پر وکٹم کی تصاویر لیتے ہیں۔ لیکن خاتون کی حالت ایسی افسوسناک اور دردناک تھی کہ کسی کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اسے اس کام کیلئے کہہ سکے یا تصاویر اتار سکے۔ وہ ہاتھ جوڑ کر ان کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے قتل کر دو۔ خاتون شاید اسے فرانس سمجھ کر ہی رات کے اس پہر بچوں کو لے کر گوجرانولہ جانے کیلئے نکلی تھی کہ کونسا زیادہ سفر ہے۔ ایک گھنٹے میں گوجرانوالہ پہنچ جائیں گے۔ لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ پاکستان ہے۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس یہی کہاجاسکتاہے کہ ان بھیڑیوں ان درندوں کو عبرت ناک سزادی جائے تاکہ حواکی بیٹیاں ان د رندوں سے محفوظ رہ سکیں۔

 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 351818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.