ملک کی ترقی اس وقت ممکن ہے جب حل طلب عوامی مسائل کو طول
دینے کے بجائے اسے بروقت حل کیا جاتا ہو یہ تب ممکن ہے جب ہر ایک کو اپنی
ذمہ داری کا پوری طرح احساس ہو اورہر ایک اپنی ذمہ داری نبھاتا ہو ۔دوسروں
کے کام میں مداخلت نہ ہوں ۔اگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا مطالعہ کیا
جائے ۔تواس میں آپ کو کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ کسی دوسرے شخص کے
کام مداخلت کی گئی ہویا وہاں سیاسی کھینچا تانی ہو بلکہ ہر شخص اور
آفیسراپنے کام سے کام رکھتاہے کسی کے لیے رکاؤٹ نہیں بنتے اور نہ کسی کے
کام میں مداخلت کرتے نظر آئیں گے۔ اوروہ ہر وقت ہر کسی کا خیال رکھتے ہیں ۔اوراپنے
طریقہ کار کے مطابق اپنی زندگی گزارتے نظر آئیں گے یہ ترقی یافتہ ممالک کی
چند نشانیاں تھیں ۔ اب اگر پاکستان پر نظر دوڑائیں توپاکستان میں سیاسی
مداخلت ,ایک دوسرے کے کام میں مداخلت ,کام میں دلچسپی نہ رکھنا اپنا کام
وقت پر نہ کرنا معمول کی بات ہے، پھر مسائل کیسے حل ہوں گے بلکہ اس سے
مسائل اورزیادہ بڑھ جاتے ہیں ان چیزوں کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے اگر آفیسر
ز اپنی ڈیوٹی ایمانتداری سے انجام دیں اور کرپٹ نہ ہو ں پھر نہ اس کے کام
میں کوئی سیاسی نمائندہ مداخلت کرسکتا ہے اور نہ کوئی وزیر, نہ ہی کوئی ایم
این اے ,اس کیلئے اچھے افسران کی ضرورت ہے جو عوام کی مشکلات کو دور کرنے
میں دلچسپی رکھتے ہوں ایم پی اے ,ایم این اے اور سینیٹرز کا کام قانونی
سازی کرنا ہے مطلب قانون بنانا ہے مسائل کے حل کیلئے حکومت نے آفیسرز کو
بھرتی کیا ہوا ہے حکومت ان کے ذریعے مسائل کے حل کا تدارک چاہتی ہے وہ بھی
کھلی کچہریوں یا دفتر میں , ایک بات ذہن میں گردش کررہی ہے وہ یہ ہے کہ
پچھلی پی ٹی آئی کی حکومت میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے تمام کمشنرز
اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی تھیں کہ اپنے اپنے ضلع میں کھلی کچہریو
ں کا انعقاد کرے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی خبر یں رہتی تھیں کہ
فلاں جگہ پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے سامنے مسائل کے انبار لگادئیے گئے کچھ
مسائل کے حل کیلئے موقع پر احکامات جاری کئے اور انکوائری مقرر کرکے حل
کرنے کا یقین دلایا پھر نہ کوئی ایم پی اے کا نام لیتا اور نہ کسی وزیر اور
ایم این اے کا نام زبان پر آتا تو کیونکہ ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل
کئے جاتے اب میں بنوں ڈویژن کی بات کرنا چاہتا ہوں پچھلے دور میں کبھی
کبھار کھلی کچہریاں ہوتی رہتی تھیں پھر ماضی قریب میں دنیا پر کورونا وائرس
کی وباء کا مسئلہ آگیا تو جس کی وجہ سے ملک کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا لیکن
اب پھر نظام معمول کے مطابق چلتا آرہا ہے اب ایک بار پھر آفیسرز نے معمول
کے مطابق عوام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا بنوں ڈویژن میں کمشنر بنوں
ڈویژن شوکت علی یوسفزئی,ڈپٹی کمشنر بنوں کیپٹن ر یٹائرڈزبیر محمد نیازی ,ڈپٹی
کمشنرشمالی وزیرستان شاہدعلی خان اور اے ڈی سی شمالی وزیرستان دولت خان کی
ہدایات پر روزانہ کی بنیاد پر ضلعی انتظامیہ کے افسران عوام کے مسائل کے
تدارک کیلئے بازاروں میں نکلتے ہیں اور عوام کے مسائل سنتے ہیں اور حل کرتے
ہیں اسی طر ح جگہ جگہ کھلی کچہریوں کا انعقاد کیا جاتا ہے کھلی کچہریوں میں
نہ صرف ضلعی انتظامیہ کے افسران شریک ہوتے ہیں بلکہ تمام محکوں کے افسران
شریک ہوتے ہیں پھر ان کھلی کچہریوں میں عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جاتا
ہے اور موقع پر مسئلے حل کئے جاتے ہیں۔ عوام کو کیا چاہیے مسائل کا حل اور
جب آفیسر دیانتدار ہوں تو مسائل حل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اور جب
مسائل حل ہوتے ہوں تو پھر لوگ ایم پی اے یا ایم این اے کے گھر کے چکر کیوں
لگائیں گے ,اگر ہر ضلع میں بنوں ڈویژن کی طرح کھلی کچہریوں کا انعقاد ہوتا
ہے تو ضلع ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور عوام کے دلوں میں آفیسرز کے
لیے جگہ پیدا ہوجاتی ہے اگر ہمارے ضلعی آفیسرز اس بات کا عہد کر لیں کہ
مسائل کے حل کیلئے ایم پی اے اور ایم این اے نہیں بلکہ ہمارے جیسے افسران
ذمہ داری نبھائیں گے کیونکہ یہ کسی پراحسان نہیں بلکہ یہ ہماری اور آپ کی
ذمہ داری ہے اور اسی کے عوض ہمیں تنخواہیں دی جاتی ہیں۔تو مسائل بھی حل ہوں
گے اور عوام کو سہولیات بھی میسر ہوں گی۔
|