ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے اخلاقی
برائیوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتاجارہاہے ،جرائم کی شرح بڑھتی
جارہی ہے آج حالات یہ ہیں کہ گناہ کوگناہ ہی نہیں سمجھاجارہا ہرایک کی دوڑ
ہے کہ کس طرح دنیاوی اسباب میں دوسرے سے آگے نکل جائے، اسی آگے نکلنے کی
دوڑمیں حرام حلا ل کی تمیزختم ہوگئی ہے ،ہم سمجھ رہے ہیں کہ جب ہمارے پاس
دنیاوی اسباب کی فراوانی ہوگی بڑاگھر،بڑی گاڑی ،بڑابینک بیلنس،بڑاکاروبار
ہوگاتوہمارے مسائل ختم ہوجائیں گے اورہم ایک آئیڈیل زندگی گزاریں گے اسی
لیے ہماری ساری توانائیاں اسی پرصرف ہوتی ہیں مگرہمیں اطمینان پھربھی حاصل
نہیں ہوتا۔
اس کی وجہ کیاہے کہ ہرآدمی یہ سب چیزیں حاصل کرکے بھی بے چین ہے اس کی مثال
یوں سمجھ لیجیے کہ صاف شفاف برتن میں آپ پانی پیتے ہیں تو پیاس بجھنے کے
ساتھ ساتھ آپ کو اطمینان ہوتا ہے او راگر میلے کچیلے برتن میں پانی پیتے
ہیں، تو پانی توپی لیتے ہیں، لیکن اطمینان نہیں ہوتا اور طبیعت میں تکدر
اور طبیعت پر الجھن آتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے باطن کوپاک کیاجائے
کیوں کہ ظاہری اعمال کا فساد اس کے دل کے فساد و خرابی پر دلالت کرتا
ہے۔ایک حدیث کامفہوم ہے کہ جب دل صالح ہوجاتا ہے تو تمام اعضا صالح ہوجاتے
اور جب دل فاسد ہوجاتا تو تمام اعضا فاسد ہوجاتے ہیں،
بدقسمتی سے ہم نے باطن کی اصلاح چھوڑدی ہے ،حالانکہ باطن صاف نہ ہونے کی
وجہ سے ہماراظاہربھی گندہ ہوگیاہے اوراس وقت معاشرے میں جوخرابیاں نظرآرہی
ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے ،ایسے میں چنداﷲ والے ہیں جواس وقت بھی پریشان
حال لوگوں کوبتارہے ہیں کہ آؤاندرکوروشن کروباہرخودباخود روشن ہوجائے گا
باطن کاتزکیہ کروظاہربھی صاف ہوجائے گا ایسی ہی ایک شخصیت کے ساتھ میری
ملاقات باغ سے تشریف لائے حاجی سرفرازنقشبندی نے کروائی ۔
پیرطریقت حضرت سیدنورزمان شاہ نقشبندی شاذلی مصروف ترین آدمی ہیں وہ ہروقت
باطنی دنیامیں مگن رہتے ہیں وہ ایک ایسی بے چین روح کے مالک ہیں کہ جواحقاق
حق اورابطال باطل میں سرگرداں ہیں اندرون ملک تو ان کافیضان ہے ہی ان کے
اثرات ملک وبیرون ملک تک پھیلے ہوئے ہیں صادق آبادراولپنڈی کی ایک چھوٹی سی
خانقاہ میں ان سے ملاقات ہوئی تومعلوم ہواکہ ان کے بلند اخلاق، ان کی عالی
ظرفی، روشن ضمیری، پاک نفسی، فراخ ذہنی، اولو العزمی اور ان کے حیرت انگیز
شب وروز سے پردہ اٹھاتی ہے۔صلاحیت و صالحیت اور بزرگانِ دین سے ان کی
شیفتگانہ اداؤں کا آئینہ دار ہے۔امت کے تئیں ان کی فکرمندی، حاضر دماغی،
فکری بیداری اور حمیتِ دینی قابل رشک ہے ،۔ دیدہ وراور دانش ور ہیں۔ ان کی
چال چلن ، رہن سہن، ان کی ادائے دلبرانہ عجیب مقناطیسیت رکھتی ہے جوان کے
ساتھ ایک مجلس کرلے وہ پھران کاہوجاتاہے ۔
سیدنورزمان نقشبندی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، وہ میدانی شخصیت
ہیں۔فعال وجواں عزم، بیماری کے باوجود ان کاحوصلہ جوانوں سے بھی بلندہے
فاطر ہستی ..نے انہیں علم وعمل دونوں خوبیوں سے نوازا ہے ان کاطرزحیات علما
وعوام کے لئے باعثِ صد رشک ہے۔ ان کاطرز عمل اسلام کے سانچے میں ڈھلا ہوا
ہے۔ رنجشوں اور تنازعات سے گریزاں رہتے ہیں ۔صرف گریزاں ہی نہیں بلکہ تمام
تررنجشوں کوختم کرنے کے داعی ہیں ،
حضرت کی خانقاہ گلشن معمارکراچی میں ہے حضرت سیدنورزمان نقشبندی کو سلسلہ
نقشبندیہ شاذلیہ میں اس وقت جوکمال درجہ حاصل ہے یہ کسی کوحاصل نہیں ،سلسلہ
شاذلیہ صوفیا کا ایک سلسلہ ہے، جس کے بانی ابوالحسن علی نورالدین شاذلی بن
عبد اﷲ شریف حسینی المغربی تھے جو قریہ غمارہ(اسکندریہ )میں پیدا
ہوئے۔سیدنورزمان شاذلی نقش بندی مفتی رشیداحمدلدھیانوی کے فیض یافتہ اور
سیداحمد علی شاہ کے خلیفہ مجاز ہیں۔انھیں سید صاحب سے چار سلاسل میں خلافت
حاصل ہے۔سید صاحب خلیفہ ہیں حضرت علی المرتضی گدائی شریف والے کے ،اور وہ
خلیفہ ہیں پیران پیر قطب الاقطاب حضرت مولانا سید فضل علی قریشی کے۔سلسلہ
شاذلیہ کی خلافت حضرت سید نورزمان کوتین بدنی اسناد(سید احمد علی نواسہ
مولانا فضل علی قریشی،خواجہ عبدالرحمن سندھی اوراپنے شیخ حضرت سیداحمد علی
شاہ )کے ساتھ بھی حاصل ہے اور وہبی طور پرسلسلے کے بانی ابوالحسن علی
نورالدین شاذلی بن عبد اﷲ شریف حسینی المغربی سے بھی۔ اس سلسلے کے بنیادی
اصول یہ ہیں:اخلاص،توبہ،نیت،اتباع کتاب و سنت،خلوت،جہاد بالنفس و دشمنان
دین،تربیت نفس،دنیا سے بے رغبتی،عبودیت،طاعات،علم الیقین،ذکر ،تقوی،قلب
کوغیراﷲ سے خالی کرنا،توکل علی اﷲ اور محبت الہی!
حضرت ابوالحسن شاذلی کی تعلیمات پڑھ اورسن کریہی کہاجاسکتاہے کہ بلند نگاہ
شخصیات اور کوہ قامت ہستیوں کے بغیر آگ کے اس دریا کو عبور کرنا قطعا ممکن
نہ تھا،ازل سے تا امروز یہی طریقہ رہا ہے کہ قدرت کسی ادارے سے بڑے کام
لینا چاہتی ہے تو اسے مخلص ،سنجیدہ اور باکمال افراد مہیا کرتی رہتی
ہے۔سلسلہ شاذلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو ایک سے بڑھ کر ایک نابعہ یہاں
خیمہ زن ملیں گے،پیرطریقت نورزمان شاذلی حضرت شاہ ابوالحسن کے حقیقی جانشین
ثابت ہوئے ہیں ۔
ان کااندازِبیاں انتہائی شیریں، مشفقانہ ،سادہ اور عام فہم ہے مگر عالمانہ
جاہ وجلال سے بھر پورہے۔آپ انتہائی فقیرصفت طبیعت کے حامل، کمال درجہ سادگی
،تقوی ،تصوف اور عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم اسے سرشاراور اﷲ رب
العزت کے کامل ولی اور پارسا بزرگ ہیں۔ واعظ بھی بے مثال، خطیبِ
باکمال،عابد بے ریا،عالم باعمل،صوفی با صفا،اہل حق کے پیشوا اور زہد و تقوی
سے سرشارہیں آپ شریعت ،طریقت ،معرفت ،اور تصوف میں بھی اہم کردار اور خدمت
انجام دے رہے ہیں۔
نورزمان شاہ شاذلی کابیان سن کریہی کہاجاسکتاہے جوحضرت سلطان باہونے کہاتھا
کہ
الست بِربِکم سنیا دل میرے،جند قالوابلی کوکیندی ھو
حب وطن دی غالب ہوئی،ہک پل سون نا دیندی ھو
قہر پوے تینوں رہزن دنیا،تو تاں حق دا راہ مریندی ھو
عاشقاں مول قبول نا کیتی باہو،توڑے کر کر زاریاں روندی ھو
روز ازل جب سے الست بِربِکم (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں )سنا ہے اس وقت سے
میری روح مسلسل قالوا بلی پکاررہی ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد بھی مجھ پر وطن
(عالم لا ہوت)کی محبت اس قدر غالب ہے کہ ایک لمحہ بھی چین اور سکون نہیں ہے
۔ اے رہزن دنیا ! تجھ پر قہر نازل ہو کیونکہ تو حق تعالی تک جانے کی راہ
میں حائل ہے ۔یہ دنیا خواہ کتنی ہی رنگین اور دلکش کیوں نہ ہو جائے عاشقینِ
ذاتِ الہی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اپنی منزل وصالِ الہی تک پہنچ ہی
جاتے ہیں ۔
نورزمان نقشبندی کے بیان کاخلاصہ یہ تھا کہ جو آدمی اپنے باطن کو گندگیوں
سے پاک کرلیتا ہے او راس کے بعد وہ اﷲ اﷲ کہتا ہے تو اسی میں اطمینان ہے۔
لہذا، اطمینان اﷲ تعالی نے اپنے ذکر میں رکھا ہے۔ اطمینان اﷲ تعالی نے اپنی
طرف رجوع، اپنی طرف انابت میں رکھا ہے۔ اطمینان اور فلاح اﷲ تعالی نے اپنے
نام میں رکھی ہے۔ یہ بھی سمجھ لیجیے اصل کامیابی یہ ہے کہ جس کے بعد پھر
کبھی ناکامی نہ ہو۔ چنانچہ اﷲ تعالی کے ذکر میں اطمینان ہے۔ مال میں، دولت
میں، اطمینان نہیں۔
اﷲ تعالی کا ذکر آپ کسی بھی حال میں کرسکتے ہیں، چلتے ہوئے، لیٹے ہوئے،
بیٹھے ہوئے، گاڑ ی میں ، دکان میں، گھر میں ،مسجد میں، سب جگہ۔ اﷲ کے ذکر
میں آپ کو سکون اور اطمینان ملے گا، یقینا ملے گا، طے شدہ ہے۔ اگر محنت
کرکے آدمی اپنے باطن کو پاک اور صاف کرلے تو یہ سکون مل جائے گا۔ |