ایک وقت تھا جب آسمانِ دنیا پر کفر کے بادل چھائے ہوئے
تھے۔دنیا گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ہر طرف ظلم و بربریت کا رواج
تھا۔عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی تھی۔بیٹی کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔امیر
ظالم اور غریب مظلوم تھا۔ان حالات میں ہمارے پیارے آقانبی آخرالزماں حضرت
محمد ﷺ تشریف لائے اور اسلام کا پرچم لہرایا۔اسلام جس کے معنی ہی اطاعت اور
فرمانبراداری کے ہیں۔جو دین حق ہے۔ جو امن و آشتی کا پیغام ہے۔جو ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے۔ اسلام وہ روشنی ہے جس نے مسلمانوں کو کفر کے اندھیروں سے
نکال کر توحید کی راہ دکھائی ۔اسلام نے سکھایا کہ بتوں کے آگے جھکنا اور
سجدہ ریز ہونا انسان کی تذلیل ہے۔اسلام نے بتایا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی
ذات ہی عبادت کے لائق ہے۔وہی معبودِ برحق ہے۔وہ لاشریک ہے۔اس کا کوئی ثانی
نہیں۔اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے جس کا ترجمہ ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت
کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں ۔اسلام نے مساوات کا
درس دیا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پرکوئی فضیلت حاصل
نہیں۔اسلام نے عدل و انصاف کی تعلیمات کا درس دیا۔بیٹی کو رحمت قرار دیاجسے
قبل از اسلام زندہ درگور کر دیتے تھے۔ اسلام نے ظلمت کے اندھیروں کو چاک کر
دیا اوردنیا توحید کے نور سے منور ہو گئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان ان تعلیمات سے دور ہوتے گئے۔اور یہ سفر طے
کرتے کرتے آج کے دور میں داخل ہو گئے جسے جدید دور کا نام دیا جاتا ہے۔
جدید جس کا مطلب ہی نیا پن ہے۔لیکن کیا ہم نے سوچا کہ یہ جدید دور اسلام کا
دور ہے بھی یا نہیں۔کہیں ہم نئے پن کی تلاش میں اپنی اقدار اور روایات کو
کہیں پیچھے تو نہیں چھوڑ آئے۔آج ہمارے علماء تصوف کے بحث و مباحثے میں الجھ
کر رہ گئے ہیں۔فرقہ واریت نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
۔مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہیں جبکہ اسلام تو امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے
۔ اسلام تو اخوت کا داعی ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے:
’’ بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘
آج مسلمانوں میں وہ ایمان کی طاقت وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو ہمارے آباؤ
اجداد کی میراث تھا۔آج ہمارے دعوے محض زبانی کلامی رہ گئے ہیں۔کشمیر میں
ہمارے مسلمان بہن بھائی ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن تمام اسلامی
ممالک چپ سادھے بیٹھے ہیں۔کہاں گیا ہمارا وہ جذبہ جہاد جو ہزاروں کے لشکر
کو تین سو تیرہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا تھا۔اگر ریلیاں
نکالنے،نعرے بازی کرنے یا نقشے بنانے سے ظلم کا مقابلہ ہو سکتاتو محمد بن
قاسم ایک بہن کی پکار پر سندھ روانہ نہ ہو جاتے ۔طارق بن زیاد کشتیاں جلا
دینے کا حکم صادر نہ کرتے۔پھر نہ سندھ فتح ہوتا نہ سپین۔آج مسلمان جذبہ
جہاد سے بہت دور جا چکے ہیں۔آج لاکھوں کڑوڑوں مسلمان مدد کے لیے پکاررہے
ہیں ۔کشمیر، فلسطین اور نہ جانے کہاں کہاں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ
بنایا جا رہا ہے مگر امت مسلمہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔آج
ایک مسلمان کی تکلیف دوسرے مسلمان کو پریشان نہیں کرتی۔اخوت کا جذبہ مفقود
ہو کر رہ گیا ہے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
آج امت ِمسلمہ جدید دور میں داخل ہو چکی ہے۔یہ جدید دور نفسا نفسی کا دور
ہے۔ہم مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔آج وہ مائیں نہیں ملتیں جو بچوں کو
اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ور کریں۔ ماں باپ بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پڑھو
لکھو اور پڑھ لکھ کر قابل بنو لیکن اسی قابلیت کا دائرہ کاردنیاوی مفاد تک
محدود ہو کر رہ گیا ہے۔کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو کوئی انجینئر، کسی کو
بینکر بننا ہے تو کسی کوافسر،لیکن کوئی بھی مجاہد نہیں بننا چاہتا۔ڈاکٹر
انجینئر تو نظر آجاتے ہیں لیکن کوئی طارق بن زیاد نظر نہیں آتا،کوئی ٹیپو
سلطان نہیں بنتا،کوئی محمد بن قاسم نہیں ملتا،کوئی محمود غزنوی سا نہیں اور
کوئی نورالدین زنگی نہیں بنتا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد پسپا ہو رہا
ہے اور کفر و شرک کے متوالوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے
ہیں۔
اسلام وہ دین حیات ہے جو ہمیں زندگی کے ہر موڑ کے لیے تیار کر تا ہے۔ہماری
تعلیمات،اقدار اور روایات ہمیں دوسروں سے منفرد کرتی ہیں لیکن جدید ہونے کے
چکر میں ہم ان تعلیمات کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔آج مذہب سے وابستہ انسان
کو قدامت پسند قرار دیا جاتا ہے ۔آج جدید یا ماڈرن اسے سمجھا جاتا ہے جو
مغرب کی تقلید کی دوڑ میں سب سے آگے ہو۔ہمارا کھانا ،لباس ،رہن سہن اور
یہاں تک کہ رسم و رواج بھی، سب مغرب کے زیر اثر آ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
ہماری زندگی بناوٹ کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
کہتے ہیں:
ترے صوفے ہیں ا فرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو ر لاتی ہے جوانوں کی تن ا ٓسانی
مغرب کی تقلید امت مسلمہ کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہے۔ایک وقت تھا جب
سارا گھر ایک ساتھ بیٹھتا تھا ۔سب ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی تھے لیکن
اب مغرب کی تقلید نے ہم سے ہماری یہ روایت بھی چھین لی۔مغرب کے پرائیویسی
سسٹم نے سب کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ہم مغرب جیسے کیسے ہو سکتے ہیں
۔ہماری روایات تو ان سے یکسر مختلف ہیں۔مغرب میں تو ماں باپ کو بڑھاپے میں
تن تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اسلام تو کہتا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت
ہے۔ہمار مذہب تو بڑوں کا ادب کرنے اور چھوٹوں پر رحم کرنے کا درس دیتا
ہے۔پھر ہم اپنی روایات کو چھوڑ کر مغرب کی تقلید کیوں کریں وہ تو خود ہمارے
در کا سوالی ہے۔ہم نے تو اپنے آباؤ اجداد کی روایات اور تعلیمات کو فراموش
کر دیا مگرمغرب نے اسی ورثے کو اپنے پاس محفوظ کر لیا ۔یہی وجہ ہے کہ مغرب
ترقی کی دوڑ میں ہم سے بہت آگے نکلتا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے
کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہودی اسی کے ذریعے نئے نئے فتنے
پھیلاتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
اگر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیں
پہچانے تو ہمیں اپنی تعلیمات کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔جدت مذہب اسلام سے
دوری کی متقاضی ہرگز نہیں بلکہ دین اسلام تو خود جدت کا حامی ہے۔اسلام جدید
ترین معلومات اورسائنس کا حامی ہے۔یہ تو دنیا کو تسخیر کرنے کا مذہب ہے یہ
کیسے قدامت پسند ہو سکتا ہے۔ہمیں اپنی سوچ اور نظریے کو بدلنے کی ضرورت
ہے۔اپنی کھوئی ہوئی روایات کی کھوج کی ضرورت ہے۔کامیابیاں خود ہمارا مقدر
بنیں گی ۔انشاء اﷲ
ساقی شراب لا کہ طبیعت اُداس ہے
تحریر:میاں محمد ارشد ساقی
ابھی چند دن پہلے کی بات کی بات ہے کہ راقم اخبار کی گرما گرم خبریں پڑھ
رہا تھا کہ اچانک راقم کی نظر اس خطرناک خبر پر پڑی جس کا عنوان کچھ یوں
تھا کہ زہریلی شراب پینے سے گیارہ سے زائد افراد کی ہلاکت ۔ ڈی پی او نے
رپورٹ طلب کرلی متاثرہ افراد کو پیٹ کے درد کے بہانے ہسپتال لایا گیا
ملزمان گرفتار ۔ متاثرہ افراد کو ایمرجنسی وارڈ منتقل کیا گیا تھا۔ متاثرہ
افراد علاج کے دوران ہی دم توڑ گئے۔ 48گھنٹوں کے دوران ہلاکتوں کی بڑھی تو
DPOنے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ عمر سعید ملک نے مزید تحقیقات کے لیے ڈی ایس
پی ہیڈ کوارٹر ندیم افضال DSPلیگل کلیم اﷲ، DSPکرائم خالد رانجھا پر مشتمل
کمیٹی تشکیل دے دی۔ یہ کمیٹی 72گھنٹوں کے دوران رپورٹ پیش کرے گی۔ پولیس
ترجمان کے مطابق متاثرہ اراد شراب کے عاد ی تھے اور باقاعدہ پرمٹ ہولڈر
بھی۔ شراب کی تیاری میں استعمال ہونے والا سامان قبضہ کرلیا گیا۔ قارئین
کرام! اخبارات کی خبریں بھی اپنی جگہ درست۔ 48گھنٹوں کے بعد عمر سعید ملک
کا ایکشن بھی ٹھیک ، ایم ایس رائے نیاز کی تصدیق بھی قابل قبول۔ پولیس کی
بروقت کاروائی بھی قابل ستائش سامنے آئی ۔ ہسپتال کی حدود میں کرسچن کالونی
کے پرمٹ ہولڈر بھی اپنی جگہ۔۔۔۔۔۔زیریلی شراب تیار کرنے والا ندیم عرف ادی
اور اس کا گروہ کتنے سالوں سے اس دھندے میں ملوث عمل چلا آرہا تھا۔
’’سوالیہ نشان‘‘ اپنی جگہ پر قائم۔ اوکاڑہ میں پولیس کا کردار تو ہمیشہ سے
قابل قدر، قابل ستائش ہی رہا ہے۔ لیکن اس معاملے میں پولیس افسران پہلی
مرتبہ مکمل طور پر بے بس اور بے خبر کیوں نظر آئے؟ عوام کا یہ سوال بھی
اپنی جگہ قائم۔۔۔۔۔عمر سعید ملک پولیس کا مہتمم ہے اور کافی تیز ترازہونے
کے علاوہ ہوشیار بھی ہے لیکن نہ جانے کیوں زہریلی شراب کشید کرنے والے
مافیا تک رسائی حاصل نہ کرسکاحالانکہ محکمہ کی روایت ہے کہ DPO'Sکی تعینات
کے بعد DPO'Sکو سکیورٹی حکام سماج دشمن عناصروں کی لسٹ فراہم کرنے کے پابند
ہوتے ہیں لیکن یہاں تو عمر سعید ملک کو ناکام کرنے کے لیے پیش کردہ رپورٹ
ناکافی نظر آئی۔ جس کا باقاعدہ براہ راست ذمہ دار DSPسٹی ندیم افضال نظر
آئے۔ کیونکہ جناب زیادہ تر ٹچ فون پر ہی مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ ان کے ریڈر
جناب نثار ان سے زیادہ ایکٹو رہتے ہیں۔ رہی بات SHOاے ڈویژن جناب ملک طارق
جاوید اعوان صاحب کی تو طارق جاوید ایک انٹرنیشنل لیول پر 50سے زائد ایوارڈ
لینے والے نامی گرامی انسپکٹر ہیں اور کافی حد تک ایکٹو بھی ہے۔ اس مرتبہ
نہ جانے کیوں ان شراب فروشوں تک کیوں نہ پہنچ سکا۔ حالانکہ وہ ایک باصلاحیت
اور نہایت ہی تجربہ کار آفیسر ہے۔ سکیورٹی آفیسر راؤ صفدر کا استعفیٰ کس کس
شواہد کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سکیورٹی آفیسر نے استعفیٰ کیوں دیا؟ اس پر بہت
جلد تبصرہ کروں گا۔ سارے حالات و قاقعات کا جائزہ لے کر اور پھر اخبارات کی
تَتی تَتی خبریں پڑھ کر طے ہو ا کہ دال میں کچھ کسی جگہ پرکالاضرورہے۔
کرسچن کالونی کے چاروں اطراف پولیس کے اہلکار بھی نظرآتے رہتے ہیں۔ راقم
بھی اکثراوقات ہسپتال کی آب وہواکاجائزہ لینے جاتارہتاہے۔حالیہ واقعات کے
پیشِ نظرجب مزیدجائزہ لینے گئے تویہ سریلی سریلی آوازیں کانوں سے ٹکرائی کہ
ساقی شراب لاکہ طبیعت اداس ہے شرابی ان الفاظوں کاوردکرتے کرتے اورایک ایک
کرکے اگلے جہان روانہ ہوتے رہے ۔ موقع پرمعلوم ہواکہ ان کوزہریلی شراب
کانہیں کروناوائرس کاحملہ ہواہے یہ بھی معلوم ہواکہ پولیس کے
اکثراہلکارکرسچن کالونی کارخ کرکے شراب پی کرڈیوٹی بھی سرانجام دیتے ہیں ۔
عوام کایہ کہناہے کہ اگرکسی کوشک وشبہ ہوتووہ محکمے کے ایسے شرابی اہلکاروں
کاڈی این اے ٹیسٹ کرواکردیکھ لیں دودھ کادودھ اورپانی کاپانی بھی ہوجائے
گا۔ یہاں پریہ بھی سناکہ اکثراکثراہلکارفاقہ کشی سے بچنے اوراپنے بچوں
کاپیٹ پالنے کیلئے کبھی ماہانہ توکبھی روزانہ کی بنیادوں پرمنتھلی بھی لیتے
ہیں۔ DSPسٹی کاپوراسرکل شراب کشید کرنے والوں کاسرکل ماناجاتاہے۔ یہاں
پرلائی جانے والی بہترین شراب جس کوسب سے پہلے لاہورکے ایک ہوٹل میں سٹاک
کیاجاتاہے ۔ لاہورکے بعدیہ شراب پورے پنجاب میں سپلائی کردی جاتی ہے اس
واقعہ کی FIRتھانہ صدرمیں درج ہے۔ اُس وقت کے SHOکوگرفتارمجرمان نے
بتایاتھاکہ ہوٹل کامنیجرجوکہ پٹھان ہے اس مافیاکاسرغنہ ہے اُس وقت پولیس نے
نہ تواُسے گرفتارکیااورنہ ہی شامل ِ تفشیش کیاقارئین کرام! اس ضلع میں
منشیات کے ڈیلروں کابیان ہے کہ روزانہ کی بنیادپر80,90لاکھ روپے کی توصرف
چرس ہی لائی جارہی ہے۔ توایسے حالات میں شراب کے شوقین عمرسعیدملک جیسے
مایہ نازآفیسرکاکامیاب ہونے دیں گے ۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ پرقائم ہے بلکہ
ناممکن سی بات نظر آرہی ہے۔ اوکاڑہ پولیس افسران کی مکمل طورپرناکامی کے
ذمہ دارریجنل پولیس افیسر ہمایوں بشیرہی تصورکئے جارہے ہیں ۔ اسی لہٰذاسے
عوام کی رائے اورخیالات کومدِنظررکھتے ہوئے ضلعی افسران کوتبدیل کرنے کی
اشدضرورت ہے ۔ کیوں کہ موجودہ افسران وزیراعلیٰ پنجاب ،آئی جی پنجاب
اوروزیراعظم پاکستان کے احکامات پرعمل درآمدکروانے کی بجائے ٹچ فون پرہی
مصروف رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے منشیات فروف اپنے اپنے مقاصدحاصل کرنے میں
کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہی منشیات فروش معاشرے کے ناسوروں کے نام
سے پہنچانے جاتے ہیں۔ ان کو موت کے سوداگر بھی کہا جاتا ہے۔ ان موت کے
سوداگروں نے سرزمین پاکستان کی کروڑوں عوام کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ضلعی
لیولز پر مقامی انتظامیہ بھی پریشان دیکھنے کو ملتی ہے۔ قانون نافذ کرنے
والے ادارے بھی یرغمال ہونے کے علاوہ بڑے بڑے سمگلرز کے ہاتھوں کھیلنے پر
مجبور نظر آتے ہیں۔ بزرگوں کی ایک کہاوت سننے کو ملتی ہے کہ اگر کسی فرد یا
کسی گھرانے سے انتقام لینا مقصود ہو تو اسے نشہ پر لگوادو۔ ضلعی لیولز پر
مقامی انتظامیہ کی کارکردگی ہمیشہ تسلی بخش ہی نہیں رہی جس طرح کے دعوے
سننے کو ملتے آرہے ہیں، موت کے ان سوداگروں کے خلاف موثر کاروائی کرنے کی
بجائے ان کی سرپرستی کی گئی جس کا ناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ پاکستان
میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں ہو شربا اضافہ ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ
آج پاکستان میں سالانہ کروڑوں اربوں روپے کی منشیات سپلائی کی جارہی ہے۔
نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً2کروڑ سے تجاوز بھی کرچکی ہے۔ ان منشیات
فروشوں کے خلاف مؤثر کاروائی اگر کی جاتی تو یقینا ان کا رخ تعلیمی اداروں
کی طرف ہرگز نہ ہوتا۔ بے قابو منشیات فروشوں نے عورتوں اور بچے کے ذریعے
اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں جبکہ پولیس صرف پڑیاں بیچنے والوں تک محدود ہی
رہی۔ منشیات کی سپلائی میں صوبہ سرحد سرفہرست چلا آرہا ہے ہمارے معزز پٹھان
بھائی ان کو اپنا قومی اعزاز سمجھتے ہیں غالباً قومی نشان بھی سمجھتے
ہونگے۔ صوبہ سرحد اس سلسلے میں ریکارڈ چرس پیدا کرتا آرہا ہے اور اس کی
مانگ میں بڑی تیزی سے خطرناک حد تک بے پناہ اضافہ بھی ہورہا ہے۔چرس اور
ہیروئن کی پیداوار میں اضافے نے نئی نسلوں کے روشن مستقبل کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا ہے اور باقاعدہ سالانہ90لاکھ سے زائد بچے اس نشے کے عادی ہورہے ہیں۔
صوبہ سرحد ہو یا صوبہ سندھ یا پھر بلوچستان ان صوبوں کا کنٹرول مکمل طور پر
انڈیا کے پاس ہے۔ بڑے بڑے سمگلرز انڈیا کے تنخواہ دار مانے جاتے ہیں۔ یہ
امیر ترین طبقہ براہِ راست پشاور سے لے کر کراچی تک مصروف ہے مصروف کا لفظ
اس لئے لکھا گیا ہے کہ راستے میں پائے جانے والے بڑے بڑے ہوٹلز ان منشیات و
اسلحہ کے مضبوط پناہ گاہیں سمجھی جاتی ہیں۔ ٹرکوں، ٹرالروں کے ذریعے سپلائی
ہونے والی یہ سوغات محفوظ طریقہ کار سے اپنی اپنی منزل پر پہنچادی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ انہی راستوں سے غیر ملکی اعلیٰ کوالٹی کی شراب بھی لائی جاتی
ہے۔ اس کی خرید میں آپ بڑے بڑے خوبصورت دیدہ زیب ہوٹلز پر خوبصورت لڑکی کے
ساتھ دیکھ سکتے ہیں ان سہولیات سے وہی طبقہ استفادہ حاصل کرتا آرہا ہے جو
اپنے آپکو بہت طاقتور تصور کرتا ہے۔ آپ یہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ
منشیات پنجاب کے گاؤں گاؤں کس طریقے سے آسکتی ہے۔کیا راستے میں چیکنگ کرنے
والے ادارے موجود نہیں؟؟جگہ جگہ ناکے ہیں۔ 90/80 لاکھ روپے کی صرف چرس اس
خوبصورت سے ضلع میں لائی جارہی ہے پولیس افسران کے عزیز یا پھر رشتہ دار
اسکی فروخت میں صف اول چلے آرہے ہیں۔ مقامی پولیس بخوبی جانتی بھی ہے اور
بہت کچھ سمجھتی بھی ہے مگر ان کے رشتہ داروں کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی
آرہی ہے۔ پولیس حکام کا یہ مؤقف سامنے آتا ہے کہ محکمہ ایسے سمگلرز کی
سرپرستی نہیں کرتا لیکن یہ یکم فروری2019ء کے اخبار کی خبر کہ کوٹلی میں
ہیروئن کے بڑے سمگلر نے حصہ لینے والے پولیس افسران کا کچا چٹھا کھول دیا،
منتھلی کا حصہ اینٹی نار کوٹیکسFIAکے افسران کے علاوہ پنجاب پولیس کی
گاڑیوں کے ٹائروں سے لے کر افسران تک حصہ جاتا تھا۔ گرفتار سمگلرز نے بڑے
بڑے افسران کو بے نقاب کردیا۔گرفتار مشتاق نوابی بلاشبہ انٹرنیشنل لیول پر
ہیروئن اور انڈین شراب کا بہت بڑا سمگلر تھا۔کوٹلی آزاد کشمیر کا ایک
خوبصورت علاقہ ہے یہاں کی تمام جیلیں منشیات کے سمگلروں سے بھری پڑی
ہیں۔مشتاق نوابی کی طرف سے دھماکہ خیز انکشاف نے پورے پاکستان کے سسٹم کو
ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف گرفتار انٹرنیشنل سمگلر کا انکشاف دوسری طرف
سالانہ90لاکھ سے زائد بچوں کا نشے کا عادی ہونا اور تیسرا یہ کہ بڑے بڑے
افسران کی سرپرستی کا الزام۔ موت کے ان سوداگروں نے ہرگھر کا دوسرا فرد
چرسی، نشئی بنا کر رکھ دیا ہے۔جگہ جگہ میخانے بن چکے ہیں۔ سرکاری ریسٹ
ہاؤسز کو سب جیل قرار دلوا کر عیاشی کیلئے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ اب
آپ دیکھئے نا کہ کسی خواتین کو کسی جرم میں ریسٹ ہاؤس میں قید رکھنا ایک
سوالیہ نشان نہیں ہے؟آپ چھانگا مانگا کا ریسٹ ہاؤس ذرا دیکھ لیں۔ اگر راقم
کی تحریر پر کسی معزز کو غصہ آجائے تو وہ چوری چھپے یا خفیہ طریقہ کار سے
کسی چوکیدار کو چار آنے دے کر پوچھ لے۔ لاہور ہو یا اسلام آباد،کراچی ہو یا
پھر فیصل آباد، مری کے ہوٹلز ہوں یا پھر راولپنڈی کے آنے والے معزز طبقہ
جات کمرہ لیتے وقت یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں کہـ’ـ ساقی شراب لا کہ طبیعت
اداس ہیــ‘چھوٹا طبقہ صرف چرس پر گزارا کرتا ہے لیکن بڑے بڑے منشیات فروش
اوربڑے بڑے شرابیئے انہی ہوٹلوں میں اپنی راتیں رنگین کرتے ہیں۔ بات صرف
اتنی سی ہے کہ چھوٹے خانہ پوری کیلئے گرفتار کرلئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے
کاروائی سے بچ جاتے ہیں۔ یہی بڑے بڑے بچتے تھے اور لگتا تھا کہ آئندہ بھی
بچتے ہی رہیں گے۔ منشیات کے عادی افراد میں اس تیزی کا رجحان اس وقت سامنے
آیا کہ جب بے روزگاری کے سیلاب نے ہر طرف تباہی پھیلائی۔
قانون نافذ کرنے والے افسران کا یہی خیال ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے
خطرناک حد تک مسائل جنم لینے لگے۔ قارئین!پاکستان میں عوام کو سنگین مسائل
سے نکالنے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر کام نہ کئے گئے۔ ن لیگ بھی تین مرتبہ
اقتدار کے مزے لے چکی۔ پی پی پی والے بھی دور اقتدار مکمل کرگئے لیکن
حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے پاکستان میں منشیات کے سمگلروں نے اپنا نیٹ ورک
قائم رکھا۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق
رکھنے والی اشرافیہ کبھی چرس کبھی آئس کبھی ہیروئن تو کبھی شراب کے نشے میں
دھت ہوتی رہی۔پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ نشہ کرنا مسلمانوں کیلئے اﷲ پاک
نے حرام قرار دیا ہے لیکن یہاں تو سب بڑے بڑے اس حرام میں شامل ہیں۔ اب
پاکستان کی تاریخ میں پی ٹی آئی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ مسائل اور
چیلنج کا سامنا کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت پر یہ بھاری ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وطن عزیز سے موت کے سوداگروں کا قلع قمع کب کرتی ہے
سالانہ90لاکھ سے زائد کے افراد نشے کے عادی لمحہ فکریہ ہے۔وطن عزیز کی
سرزمین پر گزر بسر کرنے والی اشرافیہ اور اشرافیہ کیلئے مہلک مسائل پیدا
کرنے والا یہ نشئی طبقہ چرسی وہ یا ہیروئنی، آئسی ہو یا پھر انڈین شراب کا
شرابی یہ کب تک کہتارہے گاگا کہ’ ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے۔‘
|