ہمارے ہاں المیہ رہا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث
افراد قانون کے شکنجے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور سزا سے بچ
جانے والے ان درندوں کی وجہ سے قوم کو آئے روز جنسی درندگی جیسے سانحات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گزشتہ دنوں لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایسا دلخراش
واقعہ سامنے آیا جس نے انسانیت کو شرمادیا ، ایک مظلوم ماں کے ساتھ اس کے
بچوں کے سامنے زیادتی نے ہر انسانی آنکھ کو اشکبار کر دیا۔ سات سال قبل بھی
لاہور گجر پورہ واقعہ کے مرکزی ملزم عابد علی ملہی اور اس کے ساتھیوں نے
تھانہ فورٹ عباس کے چک نمبر 257 ایچ آر کے عبدالشکور کی بیوی اور بیٹی کو
گھر میں گھس کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا ۔اس واقعہ کا مقدمہ درج
ہوا تو ڈی ایس پی راؤ نعیم شاہد نے چھاپہ مار کر48 گھنٹوں میں ملزمان کو
گرفتار کیا ۔اس زمانے میں ڈی این اے کروانے کا اتنا رجحان نہیں تھا لیکن
راؤ نعیم شاہد نے ان سب ملزمان کا ڈی این اے کروا کر محفوظ کردیا ۔ اس
مقدمہ میں مضبوط شواہد کے باوجود ملزمان عابد علی وغیرہ عدالت سے ضمانتوں
پر رہا ہوگئے جنہوں نے بعد میں دباؤ ڈال کر ورثا کو صلح پر مجبور کردیا ۔اب
جبکہ لاہور موٹروے واقعہ کے ملزمان کی نشاندہی ہوئی تو اس کا کریڈٹ اس
پولیس آفیسر کو جاتا ہے جس نے سات برس پہلے مرکزی ملزم عابد علی ملہی کا ڈی
این اے کروا کے ریکارڈ میں محفوظ کیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے بلڈ کا ڈی
این اے میچ کر گیا وگرنہ شاید پچاس سال بھی لگ جاتے تو اس سانحہ کے ملزم
کبھی قابو نہ آتے، اور پولیس ابھی تک ہوا میں تکے بازی کر رہی ہوتی ۔ ملزم
عابد علی نے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر گھڑی خاتون کی گاڑی کا شیشہ توڑا تو
ملزم کا ہاتھ زخمی ہوا اور ملزم کا خون متاثرہ خاتون کی گاڑی کے شیشے پر
لگا، جس کا ڈی این اے ٹیسٹ عابد علی کے ڈی این اے سے میچ ہو گیا۔ یوں سات
سال قبل راؤ نعیم شاہد جو کہ آج کل ایس پی صدر ملتان تعینات ہیں،2013 ء میں
ڈی ایس پی فورٹ عباس تھے کے کئے گئے اقدام کی وجہ سے ملزمان ٹریس ہوگئے۔
موٹر وے پر ایک خاتون مسافر کے ساتھ جو گزری اہل پاکستان رنجیدہ اور شرمندہ
ہیں۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں،ہوس کے بھوکے ، گھٹن زدہ اور قانون
سے عاری معاشرے میں یہ آئے روز ہوتاہے ۔ بدنامی کے خوف سے اکثر ایسے واقعات
چھپا لیے جاتے ہیں۔اسی نوع کے حادثات کا شکارہونے والی کتنی ہی عورتیں
خاموشی سے موت کی چادر اوڑ ھ لیتی ہیں، نہ کوئی قاضی القضا کا دروازہ
کھٹکھٹاتاہے کوئی اور نہ حاکم شہر کے درپر دستک دیتاہے ۔ پاکستان میں
خواتین کی تعداد کل آبادی کا تقریباً52 فیصد ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے
معاشرے میں عورت کی تحریم و تکریم پامال ہو رہی ہے۔ عورتوں کے ساتھ جنسی
زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔معصوم بچیاں ہوں، جوان
لڑکیاں ہوں یا پختہ عمر کی مائیں کسی کی عزت اور زندگی محفوظ نہیں۔ میڈیا
اطلاعات کے مطابق تونسہ میں دو بچوں کی ماں سے بچوں کے سامنے ریپ، حافظ
آباد میں6افراد کی خاتون سے اجتماعی زیادتی، پنڈدادنخان میں3 افراد کی لڑکی
سے زیادتی، جہلم میں امام مسجد کی 6 سالہ بچی سے زیادتی، لاہورمیں 9 سالہ
بچے سے دکاندار کی زیادتی، ستیانہ چک 33 گ ب میں 10سالہ بچے سے زیادتی،
سمندری چک 487 گ ب میں 7 سالہ بچے سے زیادتی، فیصل آبادمیں 19 سالہ لڑکی کو
نشہ آور مشروب پلاکر زیادتی، گوجرانوالہ میں سوتیلے باپ کی بیٹی سے زیادتی،
تاندلیانوالہ میں 4سالہ بچی اور15 سالہ لڑکی سے زیادتی کی کوشش،سانگلا ہل
میں 8 سالہ بچے سے زیادتی کی کوشش ، یہ سب واقعات پاکستان کے ایک صوبے
پنجاب میں ایک دن میں ہوئے ہیں۔ آج سماج میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کے
سدھار کے لیے کچھ کرگزرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان گھسے پٹے ،بے
سرو پا قوانین کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ہم آج مجرموں کے ساتھ کرنا
چاہتے ہیں۔ اگر سات سال قبل لاہور گجر پورا واقعہ کے مرکزی ملزم عابد علی
کو فورٹ عباس زیادتی کیس میں سزا مل جاتی تو درجنوں خواتین اس کے ظلم کا
شکار بننے سے بچ جاتیں۔ آج ضروری ہے کہ خواتین اور بچیوں کو اپنے بے رحمانہ
وجود تلے روندنے والے سفاک قاتلوں کا آختہ کرکے انہیں یوں چھوڑ دیا جائے کہ
وہ زندگی بھر لوگوں کو اپنا گھاؤ دکھاتے پھریں۔ ایسے وحشانہ جرائم میں ملوث
افراد کو چوک پر لٹکا کر عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ ایسے قبیح مجرمان پر
خوف طاری ہو اور وہ عبرت حاصل کریں ۔اور اگر ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے
والے ہمارے حکمران عالمی طاقتوں کے دباؤ سے نکل کر پاکستان میں حقیقی شرعی
قوانین کے نفاذ کا اعلان کردیں تو ناصرف خواتین کو ان کے مکمل حقوق مل
جائیں بلکہ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔
|