غریبوں کی فریاد ۔۔ثمینہ کی زبانی

میں آفس آتے ہوئے اور گھر واپس جاتے ہوئے اکثر اس کو دیکھتا ہوں کہ ایک عورت نقاب اوڑھے تیز دھوپ اور سخت گرمی میں مشروب کی ریڑھی لگائے اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کی خاطر روزی کمانے مصروف ہوتی ہے مجھے تجسس ہوا کہ اس کے حالات زندگی کے بارے معلوم کروں اس لیے میں نے اس سے تفصیلی ملاقات کی تو مجھے پتا چلا کہ اس کا نام ثمینہ ہے اس کی عمر تقریباََ 32سال ہے وہ شادی شدہ ہے اور اس کے تین بچے ہیں جو کہ زیر تعلیم ہیں اس کا شوہر دیہاڑی دار مزدور ہے جس کی کبھی دیہاڑی لگتی ہے تو کبھی نہیں وہ کرائے کے ایک کمرے والے مکان میں رہتے ہیں ثمینہ خود بھی مریض ہے لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس مہنگائی کے دور میں اپنا علاج نہیں کرواسکتی لیکن اس کا خواب ہے کہ اس کی اولاد تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں کوئی مقام حاصل کرے اس لئے وہ گزشتہ ایک سال سے سڑک کنارے ریڑھی لگا رہی ہے وہ سردیوں میں دال چاول اور گرمیوں میں مشروب بیچتی ہے اس کا کہنا ہے کہ میں اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کروں گی اسی لیے ہی میں گھر سے باہر نکلی ہوں ثمینہ میٹرک پاس ہے اس کا کہنا تھا کہ انسان کے حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے ،میں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں میں گھر سے باہر نکل کر ریڑھی لگایا کروں گی میری شادی کے ایک سال بعد تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ہماری اپنی زمینیں تھیں جو کہ بیگم کوٹ کے علاقے میں ہیں لیکن ان پر قبضہ گروپ نے قبضہ جمایا ہوا ہے آج ان کے کاغذات تو ہمارے پاس ہیں لیکن مکان تک لئے ہم محتاج ہوچکے ہیں آج قبضہ گروپ سے ہماری زمینیں وا نہیں ہو رہیں شایدوہ لوگ کافی بااثر ہے اس لیے ہماری کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ،مہنگائی کے اس دور میں سانس لینا بھی مشکل ہے کبھی کبھی تو خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پھر بچوں کا خیال اس ارادے باز رکھتا ہے کہ میرے بعد ان کا کیا بنے گا آج ہمارا کوئی پرسان حال نہیں یہاں پر کئی بڑے بڑے لوگ آتے ہیں سبھی جھوٹے وعدے کر کے چلے جاتے ہیں اور بعد میں ہماری خبر تک نہیں لیتے ۔

ثمینہ جب اپنی کتھا سنا رہی تھی تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے وہ میری طرف پر امید نظروں سے تک رہی تھی کہ شاید میں اس کے لئے کچھ کروں گا میں اس کی باتیں سن کر سوچ رہا تھا کہ کیا غریبوں کا اس ملک میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے؟کہاں گئے ہیں حکومت کے وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،جن سے ان غریبوں کے چولہوں کا ٹھنڈا ہونے سے بچایا جا سکے کہاں گئے وہ اپنے آپ کو خادم کہلوانے والے جو بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے،کہاں ہیں وہ روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے ،جو کھلے آسمان کے نیچے کھڑی ثمینہ کو ایک چھت فراہم کرسکیں ثمینہ فریاد کرتی ہے ان انصاف کے نام لیوا لوگوں سے کہ میں انصاف کی منتظر ہوں مجھے بھی انصاف چاہئے میں پوچھتا ہوں ان نام نہاد این۔جی۔اوز کے نمائندوں سے جو سڑک کنارے نقاب اوڑھے ایک عورت کو دیکھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں۔حکمران طبقہ نے شاید غربت مکاﺅ پروگرام کے تحت ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے غریبوں کو ہی ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے لیکن میرے ملک کے غریب اور پریشان حال لوگو ایک ذات اور بھی ہے جو آپ کی مشکلات کو دیکھ رہی ہے آپ کی التجاﺅں کو سن رہی ہے مجھے امید اور قوی یقین ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب میرے وطن کے غریب اور اداس چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جائے گی ۔
میرے وطن کے اداس لوگو،نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو
کہ کوئی تم سے حساب مانگے
خواہشوں کی کتاب مانگے
نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو
کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے
وفائیں اپنی ہمیں لٹا دو
وطن کو اپنے ہمیں تھما دو
اٹھو اور اٹھ کر بتا دو ان کو
کہ ہم ہیں اہل ایماں سارے
نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے
ہمارے دل میں تو ایک خدا ہے
میرے وطن کے اداس لوگو
جھکے سروں کو اٹھا کہ دیکھو
قدم تو آگے بڑھا کے دیکھو
ہے ایک طاقت تمہارے سرپر
کرے گی سایہ وہ سروں پر۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186827 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.