تقاضائے وقت

بی بی سی کی ویب سائٹ کے مطابق ”ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے UNPF کے تعاون سے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں تین روزہ خواتین سیکس ورکرز ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں ایک سو سے زائد سیکس ورکرز نے شرکت کی۔ اس طرح کی ورکشاپ لاہور میں بھی منعقد کی گئی۔“ویب سائٹ کے مطابق UNFP کے پروجیکٹ افسر ڈاکٹر صفدر کمال نے بتایا کہ ان کے پاس مکمل اعداد و شمار تو نہیں لیکن ایک سروے کے مطابق کراچی میں ایک لاکھ اور لاہور میں 75 ہزار سیکس ورکرز کام کررہی ہیں۔ اس ورکشاپ کے ذریعے محفوظ طریقے اپنانے سے ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔ یہ ورکشاپ مختلف این جی اوز کے تعاون سے منعقد کی گئی جس میں سرفہرست GRHF کے سربراہ مرزا علیم بیگ کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے سیکس ورکرز میں آگہی عام کرنے کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ورکشاپ کے آرگنائزر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ ورکشاپ میں خواتین کو شرکت کے لئے ایک ہزار روپیہ یومیہ کا مشاہرہ بھی دیا گیا اور ان کی تنظیم اقوام متحدہ کے تعاون سے جنسی طریقوں کو محفوظ بنانے پر توجہ دے رہی ہے“۔ اس طرح کی ورکشاپ کراچی میں منعقد ہونا بلاشبہ حد درجہ فکرمندی کی بات ہے‘ ورنہ یورپ کے بے خدا معاشروں میں تو اس طرح کی ”سماجی انجینئرنگ“ کی خدمات روز اخباروں میں شائع ہوتی ہیں اور وہاں خدمات کا یہ تصور نوع انسانی کے ”مذکر“ سے وابستہ ہے۔ برطانیہ کے اخبار میں 31 برس کی عمر کے نوجوان کا انٹرویو شائع ہوا‘ اس نے کہا کہ ”میں بغیر نکاح کے ایک سماجی خدمت انجام دے رہا ہوں کیونکہ 9 کنواری ماؤں کو میری خدمات کے باعث سرکاری فلیٹ حاصل ہوئے۔“ واضح رہے کہ وہاں کنواری ماؤں کو سرکاری فلیٹ کے حصول میں ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ وہاں کے مرد کا یہی اصل کردار ہے اور عورت صبر اور برداشت کا پیکر اور مرد کی زیادتیوں کا ہر حوالے سے شکار ہورہی ہے۔ اگرچہ بہت سی خواتین اب بچے پیدا کرنے کے رول سے انکاری ہوتی جارہی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف انگلستان میں نصف حمل شادی سے قبل قرار پاتے ہیں اور اسکول اور کالج کی گرل فرینڈز ماں بن جاتی ہیں۔ وہ اخلاق باختہ معاشرہ مجبور ہے کہ Love Mothersکی تحقیر کے بجائے تعظیم کرے اور وہاں ان کی ”روحِ حریت“ کو احسان کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس معاشرے کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں‘ اس لئے عورتوں کو یہ باور کرادیا گیا ہے کہ انہیں بچے پیدا کرنے اور پالنے کے لئے کسی شوہر کا زیربار ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اور اکیلی ماں وہاں شرم کے بجائے اسٹیٹس سمبل کے طور پر لی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تنہا مائیں خود بھی تنہا ماؤں کی اولاد ہوتی ہیں‘ لہٰذا وہ اپنی اولاد کو بھی وہ خاندانی ماحول نہیں دے پاتیں جو متوازن ذہنی اور اخلاقی اٹھان کے لئے ناگزیر ہے۔ ان معاشروں کے مسائل کا اندازہ مسائل سے نبرد آزما لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ کراچی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو آپ عورتوں کی آزادی کا نام دیں یا مردوں کی غیر ذمہ داری.... بات ایک ہی ہے۔ خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے عدم تدارک نے نوبت یہاں تک پہنچادی کہ حوا کی بیٹی جو بہرحال کسی کی بیٹی اور بہن تو ہے ناں‘ مردوں نے اسے سیکس ورکر کا درجہ دے دیا۔ کیا کوئی مرد اپنی بیٹی یا بیوی کے لئے معاشرے کی اس ”خدمت“ کا تصور رکھتا ہے؟ عورت اور مرد کا تعلق جو بہت پیچیدہ اور نازک ہے‘ اسلام نے انتہائی جاہل معاشرے میں خاندانی نظام کی نعمت دی تھی جس میں باپ کا ایک کردار ہے‘ ماں کا الگ کردار۔ دونوں کے حقوق قرآن کی نظر میں برابر تو ہیں مگر یکساں نہیں۔ نہ کلی مساوات کا تصور ہے نہ عورت کی برتری کا احمقانہ تصور۔ نہ عورت کسی کمزوری کا نام ہے‘ نہ حیوانوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوسکتی ہی، نہ اسے خادمہ یا لونڈی کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ نکاح کی قید دراصل اس کی اصل آزادی اور وقار تھا اور دیگر آزادیاں دراصل مردوں کی سفاک چالیں!!! یورپ کی تاجر برادری نے جو صارف کلچر متعارف کرایا اس کی جدید ترین شکل Disposable کلچر ہے‘ یعنی استعمال کریں اور پھینک دیں۔ اس طرح گویا لذت پرستی اور تسکین زندگی کا مرکز و محور بن گئی۔ اسی لذت پرستی اور مادیت پرستی کے پھیلاؤ کو عالم گیر اصول قرار دے کر پوری دنیا پر اس کے نفاذ کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں اپنی مذہبی، اخلاقی، روحانی اور خاندانی اقدار کو گروی رکھنا پڑے گا۔ ہم 17 کروڑ عوام دراصل مغربی کمپنیوں کے 17 کروڑ صارف ہیں۔ ان کا نفع ہر طرح ہمارا خسارہ ہے۔ (یہ ایک الگ بحث طلب موضوع ہے)۔ جن این جی اوز کے تعاون سے یہ ورکشاپ منعقد کی گئی ان کا اصل ہدف ہی ہمارا خاندانی نظام ہے۔ ایک طرف یہ این جی اوز خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دے رہی ہیں تو کہیں ایڈز سے بچاؤ کی آڑ میں انہیں ”سیکس ورکرز“ کہہ کر متعارف کرارہی ہیں۔ جس عمل کی سزا سنگسار کرنا قرآنی تعزیرات میں متعین ہے اگر شادی شدہ ہو‘ اور غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے۔ اس انتہائی فحش عمل کو یوں قانونی تحفظ دلوانا یا معاشرے میں عزت کا مقام دلوانا اور اسے سماجی خدمت کے زمرے میں لانا صرف عذاب ِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام انبیائے کرام پر فتنوں کے ایسے دور گزرے اور پچھلی قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوئیں تو حیوانیت کو بھی شرما گئیں‘ اور آج بھی اللہ کے باغی اللہ کی حدود کو سرعام للکار رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں فحش ویب سائٹس، درجنوں ٹیلی وژن چینلز پر چلنے والے سیکڑوں بے ہودہ اشتہارات و ڈرامے اور ہندوانہ کلچر جس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ نکاح کے راستے میں آنے والی جن رکاوٹوں کو اسلام نے دور کیا تھا آج پھر ہمارے سماج کو انہی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اور ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے نکاح کے فریضے سے جان چھڑاتے ہیں اور اس سادہ سی رسم کو اتنا مہنگا کردیا گیا کہ بہت سے گھرانوں کے لڑکے‘ لڑکیاں ان مصارف کے مہیا ہونے کے انتظار میں ہی عمریں گنوا دیتے ہیں۔مقامِ افسوس یہ کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اپنے سیکولر ایجنڈے کی تکمیل کے ساتھ مشروط کرتے ہیں۔ حکمرانِ وقت کشکول اٹھائے انہی سامراجی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ نے حدودِ الٰہی پامال کرنے اور کبیرہ گناہوں کی تشہیر اور انہیں تحفظات فراہم کرنے کے لئے کثیر سرمایہ اور تحفظ فراہم کیا ہوا ہے کہ خدا کے باغی خدا پرست معاشرے میں یوں سرعام دندناتے پھریں‘ اپنے مکروہ عزائم کی تشہیر کرتے پھریں‘ اسلام نے عورت کو جو عظیم مرتبہ دیا وہ اس سے چھین کر پھر اسے دورِ جاہلیت میں واپس دھکیل دیں۔ ضرورت ہے کہ ان این جی اوز کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کیا جائے۔ ان چیلنجوں کا سامنا کرنے اور عورت کو ان سازشوں کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے ایک بھرپور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
Fayyaz Ahmed Farooq
About the Author: Fayyaz Ahmed Farooq Read More Articles by Fayyaz Ahmed Farooq: 15 Articles with 67844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.