اسلامی قمری کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ’’صفر المظفر‘‘ شروع
ہو چکا ہے ’’صَفَر‘‘ تین حرفوں ص۔ ف۔ ر کا مجموعہ ہے جس کامعنی ہے خالی
ہونا ،ماہ صفر کو صفر اس لئے کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے اندراس مہینے
میں عرب لوگوں کے گھر مرد حضرات سے عموما خالی ہو جاتے تھے کیونکہ وہ چار
مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجۃ ،محرم ِاوررجب) میں مذہبی طور پر جنگوں اور
لڑائیوں میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے اور جیسے ہی محرم کا مہینہ ختم ہوجاتا
تھا تو جنگ ،لڑائی اور سفر وغیرہ کی طرف چل دیتے تھے اور اس طرح ان کے گھر
مرد حضرات سے خالی ہوجاتے تھے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اور وجوہات بیان کی
جاتی ہیں۔عام طور پر صفر کے ساتھ’’ المظفر‘‘ کا لفظ لگا کر ’’صفر المظفر
‘‘کہا جاتا ہے المظفر کا معنی ہے کامیابی وکامرانی والا،اس کی وجہ یہ ہے کہ
چونکہ زمانہ جاہلیت میں صفر کو منحوس مہینہ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی اس
جاہلیت کے جراثیم لوگوں میں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بعض لوگ اس مہینے
کو آسمانوں سے لاکھوں کی تعداد میں بلائیں اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ
قرار دے کر منحوس خیا ل کرتے ہیں اور اس مہینے میں کوئی خوشی کی تقریب مثلا
شادی بیاہ وغیرہ ،کوئی نیا کام یا سفر کرنے کو معیوب اور منحوس سمجھتے ہیں
اس لئے صفر کے ساتھا ’’المظفر‘‘ کا لفظ لگا کر’’ صفر المظفر‘‘ کہا جاتا ہے
تا کہ اس مہینے کو منحوس اور شر و آفت والا مہینہ نہ سمجھا جائے بلکہ دوسرے
مہینوں کی طرح کامیابی والا اور خیرو برکت کا مہینہ سمجھا جائے۔ اسلامی اور
شرعی اعتبار سے اس مہینے سے کوئی نحوست وابستہ نہیں بلکہ احادیث مبارکہ میں
ہمارے پیارے آقا حضور پرنورﷺنے بڑے صاف اور واضح ارشادات کے ذریعے ’’ماہ
صفر ‘‘کے متعلق پائے جانے والے اور وجود میں آنے والے تمام باطل نظریات
،بدفالیوں اور بد شگونیوں کی سختی سے تردید فرما کر ان کا طلسم توڑ دیا اور
کھلے لفظوں میں نام لے کر اعلان فرمایا کہ صفر کے متعلق تمام توہمات باطل
ہیں جیساکہ بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کی نبی کریم ﷺ
نے فرمایا ’’لا عدوٰی ولا طیرہ ولا ھامہ ولا صفر‘‘یعنی ایک بیماری کا (اﷲ
کے حکم کے بغیر خود بخود) دوسرے کو لگ جانا ،بدشگونیاں اور مخصوص پرندے کی
بد شگونی اور صفر (کی نحوست وغیرہ) یہ سب باتوں کی کوئی حقیقت نہیں،اس واضح
ارشاد نبوی ﷺ کے باوجودبھی آج کل لوگوں کی بڑی تعداد اس مہینے کو منحوس
سمجھتی ہے بلکہ اس مہینے کے حوالے سے عجیب وغریب چیزیں ہمارے معاشرے میں
مشہور ہے ۔ مثلا اس کے ابتدائی 13دن منحوس اور’’ تیرہ تیزی‘‘ کہلاتے ہیں۔اس
مہینے کے آخری بدھ کو خوشی منائی جاتی ہے اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے
وغیرہ، ان سب چیزوں کی کوئی اصل نہیں،ماہ صفر کو منحوس یا برا سمجھنے کا
لازمی نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ بذات خود برا ہے حالانکہ احادیث صحیحہ میں
زمانے کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے کیونکہ زمانہ درحقیقت اﷲ کی قدرت کا
مظہر ہے اسلئے زمانے کو برا کہنے کا نتیجہ درحقیقت اﷲ تک پہنچتا ہے۔ اس لئے
کوئی زمانہ ،تاریخ ،دن ،انسان اورجانور اپنی ذات میں منحوس نہیں ،نحوست کا
یہ غلط تصور پہلی امتوں میں بھی پایا جاتا تھا بلکہ بعض مخالفین اور حاسدین
نے تو حد کردی کہ انھوں نے انبیاء کرام علیھم السلام کی ذات پر نحوست کا
الزام عائد کیا جس کواﷲ تعالی نے قرآن پاک میں کھلے لفظوں میں رد کر کے ان
کی بات کو انہی پر الٹادیا اورارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی نحوست ان کی اپنی
بداعمالیوں کی ہے۔ان کی مثال تو ایسے ہے ،جیسے کہا جاتاہے کہ ایک کالے حبشی
شخص کو راستے میں پڑا ہوا ایک شیشہ ملا ،اس حبشی نے اس سے پہلے کبھی اپنا
چہرہ شیشے میں نہیں دیکھا تھا اس نے شیشہ اٹھاکر جب اپنا منہ دیکھا تو بڑا
بد صورت ،رنگ کالا اور ناک بڑی نظر آئی تو غصے میں آ کر شیشہ زمین پر پھینک
دیا اور کہا کہ تو اتنا بد صورت ہے اسی لئے تجھے کسی نے یہاں پھینک دیا۔تو
جس طرح کالے حبشی نے اپنی بد صورتی کی نسبت شیشے کی طرف کی ،اسی طرح ہم بھی
اپنی بد عملی کی نحوست کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔بہر حال قرآن
وحدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ رکھنا یا
اس مہینے کو بلاؤں ،آفتوں،پریشانیوں اور بیماریوں کا مہینہ سمجھنا اور خوشی
کی جائز تقریبات اورسفرکرنے کو منحوس سمجھنا وغیرہ یہ سب من گھڑت اور اپنی
طرف سے بنائی ہوئی بناوٹی باتیں ہیں جن کی قرآن و حدیث ،صحابہؓ
وتابعین،آئمہ مجتھدین،اور سلف صالحین سے کوئی صحیح سند نہیں ملتی،بلکہ
جاہلیت کے ایجاد کردہ باطل خیالات اور توہمات ہیں۔اسلام میں بد شگونی اور
نحوست کا کوئی تصور نہیں،اسلام میں اگر نحوست وبدشگونی کی کوئی چیز ہے تو
وہ انسان کی بد اعمالیاں،فسق وفجور،ناچ گانا۔فحاشی وعریانی اور اﷲ تعالی کی
کھلم کھلا نافرمانیاں ہیں جو گھر گھر ہورہی ہیں ،اگر ہم واقعی نحوست سے
بچنا چاہتے ہیں تو ایسے قہر خداوندی کو دعوت دینے والے کاموں سے بچیں۔
|