طلاق : کسی بھی معاشرے کا ایک بدنما سچ ۔ بات اگر مذہب کو
بنیاد بنا کر کی جائے تو یہ ایک جائز عمل تو ہے پر جائز ہو کر بھی رب کی
ذات کے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے ۔
اب بات کرتے ہیں معاشرتی بنیادوں پر تو کچھ دہائیاں پہلے تک مشرق کو یہ
امتیاز حاصل تھا کہ یہاں شادیاں توڑنے کے لیے نہیں کی جاتیں تھیں ۔ یہاں
سانسوں کی ڈور تو ٹوٹ سکتی تھی پر شادی نہیں ۔ مرد و عورت دونوں ہی طلاق کو
گالی سمجتے تھے ۔ شادی شدہ زندگی میں آنے والے مسائل کو ہر صورت حل کیا
جاتا تھا ۔ اور اکثر ! زندگی مسائل کے ساتھ ہی رواں دواں رہتی ۔
پہلے لوگ انسانوں کو اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرتے تھے ۔ پھر
اولاد کے آ جانے کے بعد اکثر مسائل یا تو کم ہو جاتے یا ختم ہو جاتے ۔ اور
میاں بیوی دونوں کی پوری توجہ اولاد کی طرف ہو جاتی ۔ پھر میاں بیوی سے
محبت کے ساتھ ساتھ عزت بھی کرنے لگ جاتا کہ یہ میرے بچوں کی ماں ہے ۔ اور
بیوی بدلے میں دگنی محبت و عزت کا اظہار کرتی کہ اس کے بچوں کا باپ اس کی
اور اس کے بچوں کی کفالت کس جانفشانی سے کر رہا ہے ۔ اگر کچھ کہانیوں میں
میاں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں بھی کرتا تو بیوی ساری عمر دوہری ذمہ داری
یہ سوچ کہ اٹھاتی رہتی کہ میں اپنے بچوں کا گھر نہیں ٹوٹنے دوں گی ۔ آفرین
ہے اس دور کے لوگوں پر ، اور سلام ہے ان کے حوصلوں کو ۔ کیوں کہ زندگی دو
چار دن کا ایڈوینچر ٹرپ نہیں ہے ۔ بعض اوقات ایک ، ایک دن سالوں طویل لگتا
ہے ۔ پراس دور کے لوگ سادہ لوح تھے وہ صرف یہ جانتے تھے طلاق خدا کی ذات کے
نزدیک ایک ناپسندیدہ فعل ہے ۔ بس اتنا علم ان کے لیے کافی تھا ۔ اس سے
زیادہ کی ان کو خواہش نہیں تھی ۔
پھر وقت بدلا اور۔ ہم زیادہ پڑھ لکھ گئے ۔ اور ہم نے ترقی کر لی ۔ دوسری
ترقی یافتہ قوموں کی طرح ہم بھی پریکٹیکل ہو گئے ۔ ہم انسانوں کی
موڈیفیکیشن کرنے کے قائل ہو گئے ۔ شادی کے رشتے میں رویوں کو لے کر ڈیمانڈز
آ گئی ۔ جو جب تک ڈیمانڈز پوری کر سکتا تھا تب تک قابلِ قبول تھا ۔ جو خود
کو جتنا اگلے بندے کے مطابق بدل سکتا تھا تب تک برداشت کیا جا سکتا تھا ۔
پھر اس رشتے میں اکثر عزت ختم ہو گئی اور خود پسندی آ گئی ۔ پھر ہم خوبیوں
اور خامیوں والے انسانوں کے بجائے فرشتوں کے ساتھ رہنا چاہنے لگے ۔ پھر
بچوں پر ملکیت کے دعوے ہونے لگے ۔ جو زیادہ ملکیت جتا سکتا بچے اس کے ۔
ہم ترقی کرتے کرتے اتنا با علم ہو گئے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ شادی تو ایک
بار نہیں بار بار کی جا سکتی ہے ۔ اور اس میں طلاق کا پہلو رکھا ہی اسی لیے
گیا ہے کہ اگر ساتھ نہ رہ سکیں تو طلاق لے لیں ۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اس
کو ناپسندیدہ انسان کے ساتھ گزارنے کی کیا ضرورت ہے ۔ یہ سوچ ہمیں ہمارے
علم نے دی ہے ۔
تیز رفتار زندگی اور خود پسندی نشے میں کوئی یہ نہیں سوچتا کا آپس کی جنگ
کو جیتنے کی تگ و دو میں وہ معصوم زندگیاں جو اس شادی کے نتیجے میں اس دنیا
میں آئی ہیں وہ سوالیہ نظروں سے کبھی ماں اور کبھی باپ کی طرف دیکھتی ہیں
کہ شائد کسی کو ہمارہ خیال آ جائے ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ عدالتوں کے چکر
لگاتے فٹ بال کی طرح کبھی ماں کے گھر اور کبھی باپ کے گھر دھکے کھاتے بچوں
کا اپنا گھر کون سا ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ ایسے لوگوں کا طلاق لینا قتل سے
بھی بڑا جرم ہے کیوں کہ قاتل تو مقتول کو ایک ہی بار مار دیتا ہے پر ایسے
ماں باپ کی اولاد اپنے ہی پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں ہر روز مرتی ہے۔ پر یہ
مجھ جیسے جذباتی انسان کا ماننا تو ہو سکتا ہے پر اس ترقی یافتہ دور میں
بسنے والے پریکٹیکل انسانوں کا نہیں ۔
یہاں ایسے والدین کا دعوا ہوتا ہے کہ اپنے شوہر یا بیوی کے ساتھ ہمارہ
گزارہ نہیں تھا ورنہ بچوں کے لیے تو وہ جان بھی دے سکتے ہیں ۔
میرا صرف ایک سادہ سا سوال ہے کیا بچوں کی خاطر ایک ساتھ رہنا جان دینے سے
زیادہ مشکل ہے ۔؟
کاش ہم کم علم اور سادہ لوح رہتے پر ساتھ تو رہتے ۔
|