سندھ میں تعلیم کس طرف جارہی ہے؟

محکمہ ِ تعلیم سندھ نے اچانک جماعت نہم کی حیاتیات، کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں تبدیل کر دی ہیں۔ واضح رہےکہ تعلیمی ادارے لگ بھگ چھےمہینوں کے لیےبندتھے۔چھے مہینوں کےبعد جیسےہی اسکول کھلے تو معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا کتابیں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس بارے میں کسی قسم کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اور سندھ کےتمام بورڈز نےبھی اس بارے میں کسی قسم کی کوئی اطلاع دینےکی زحمت نہیں کی۔حالاں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے خبر رسانی اور آسان ہوگئی ہے۔ کراچی میٹرک بورڈ کی ویب سائٹ اس ضمن میں تاحال خاموش ہے۔ہمیں بھی اس بارےمیں اس وقت معلوم ہوا، جب گورنمنٹ اسکولوں کے طالب علموں کوانگریزی کی نئی کتابیں فراہم کی گئیں اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر حیاتیات اورانگریزی کی نئی کتابیں اپلوڈ کی گئیں۔ بہتر ہوتا کہ نئے سال سے یعنی 2021ء سے ان کتابوں کا اجرا کیا جاتا۔ ابھی پرانی ترتیب چلنےدی جاتی۔پہلے سے وقت کی شدید قلت ہے۔ بچے تیاری کیسےکریں گے۔اس فیصلےنے اساتذہ اور طلبہ دونوں کو پریشان کر دیا ہے کہ اب ان مضامین کی تیاری اتنے کم عرصے میں کیسے ہو پائے گی۔
قابلِ تشویش بات یہ ہےکہ حیاتیات کی کتاب تاحال اردو بازار میں دستیاب نہیں ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے پہلے ہی بچوں کا آدھا سال ضائع ہو چکا ہے۔سمجھ نہیں آتاکہ ہمارا محکمہِ تعلیم اس حد تک سست کیوں ہے؟پبلشرز کو چاہیے تھا کہ وہ ایک مہینا پہلے ہی اس کا انتظام کر دیتے۔ تاکہ بچوں کی پڑھائی میں خلل واقع نہ ہوتا ۔ 15 ستمبر سے جماعت نہم اور دہم کے لیے اسکول کھول دیے گئے۔ ان جماعتوں کے بچے اسکو ل میں آرہے ہیں۔ لیکن قابل ِ افسوس بات یہ ہے کہ محکمہ ِ تعلیم کی غفلت کی وجہ سے ان کے پاس نصاب کی ساری کتابیں نہیں ہیں۔ شنید ہے کہ7اپریل2021سے جماعت نہم اور دہم کے لیےبورڈ کے امتحانات شروع کر دیے جائیں گے۔ ایسی صورت حال میں پہلے کتابوں کا تبدیل کر دینا ۔۔۔پھر بازار میں نہ لانا۔۔۔۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے حکام ِ بالا کو بچوں کی تعلیم کی کتنی فکر ہے اور تعلیم ان کی ترجیحات میں کس حد تک شامل ہے۔
اس وقت اردو بازار میں ریاضی (جماعت نہم دہم) کی کتاب بھی دست یاب نہیں ہے۔ چند دن قبل دست یاب تھیں۔ مگر اب وہ اسٹاک ختم ہوگیا۔ جب محدود مقدار میں کتابیں شائع کی جائیں گی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ لاکھوں طلبہ ہر سال بورڈ کاامتحان دیتے ہیں۔ جب کہ کتابیں ہزاروں کی تعداد میں شائع کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول انتظامیہ کوکتابوں کے لیے پرائیویٹ پبلشرزکا سہارا لینا پڑتا ہے۔طلبہ سخت پریشان ہیں کہ وہ کس طرح اتنے مختصر وقت میں تیاری کر پائیں گے۔ یہ بات سمجھ آنے والی ہے کہ تعلیمی ادارے بند تھے۔ وہاں کوئی کام نہیں ہورہا تھا۔ لیکن کتابوں کی دکانیں اور پبلشرز تو کھلے تھے۔ پھر انھوں نے اس سلسلے میں کیوں غفلت برتی؟ متعلقہ حکام ایسے پبلشرز کے خلاف ضرور ایکشن لیں۔

چند دن قبل خبر آئی تھی کہ پہلی سے بارہویں تک کے نصاب میں تیس سے پچاس فی صد تک تخفیف کی جائے گی۔ سیکریٹری تعلیم کی طرف سے سفارشات رکھی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ وزیرِ تعلیم کی منظوری کے بعد اسے لاگو کیا جائے گا۔مگر وزیرِ تعلیم کی بیانات میں ہمیں کورونا کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انھوں نے اس بارے میں ایک بیان بھی نہ دیااور نہ ہی تاحال سفارشات منظور کیں۔اس کے برعکس فیڈرل بورڈ اور پنجاب کے بورڈز نے نصاب میں چالیس سے پینتالیس فی صد تک کمی کردی ہے۔ اوراس ضمن میں ایک برقی کتاب (E Book) فیڈرل بورڈ نے اپنی ویب سائٹ پر چسپاں کر دی ہے۔جس میں چالیس سےپینتالیس فی صد تک کی کمی کی تمام تر تفصیلات ہیں۔ اس طرح کا تعلیمی و تخلیقی کام سندھ میں کیوں نہیں کیا گیا؟گورنمنٹ اسکولوں میں بہت سے قابل اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ انھیں اس کام پر لگایا جائے اور جلد سے جلد سندھ کے تعلیمی بورڈز کی ویب سائٹوں پر فیڈرل بورڈ کی طرح برقی کتاب چسپاں کی جائے۔تاکہ طلبہ اور اساتذہ کے لیے آسانی ہو۔
سندھ کے محکمہِ تعلیم نے پچھلےسال جماعت نہم اور دہم میں پڑھانے کی اسکیم تبدیل کر دی تھی۔ پہلے جماعت نہم اور دہم، دونوں میں پانچ پانچ مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ پھر بتایا گیا کہ اگلے سال سے جماعت نہم میں سات مضامین پڑھائے جائیں گے۔ جب کہ جماعت دہم میں پرانی ترتیب چلائی جائے گی۔ کیوں کہ انھوں نے جماعت نہم پرانی ترتیب کے مطابق پڑھی تھی۔ جب جماعت نہم نئی ترتیب کے مطابق پڑھنے والے بچے جماعت دہم میں آئیں گےتو انھیں نئی ترتیب کے مطابق ہی جماعت دہم پڑھنے پڑے گی اور پھر یہی ترتیب چلتی رہے گی۔ اب اسکولوں میں محکمہِ تعلیم کی ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ پرچے کس طرح آئیں گے۔ یعنی ماڈل پیپرز جاری نہیں کیے گئے۔پہلے نہم اور دہم کے کل نمبر 850 ہوتے تھے۔ اب 1100 ہیں۔ پہلے انگریزی کے 75نمبر تھے۔ اب 100 ہیں۔پہلے ریاضی کے 100 نمبر ہوتے تھے، اب جماعت نہم اور دہم دونوں میں ریاضی کا مضمون پڑھا یا جائے گا اور کل نمبر ہوں گے 150۔75 نہم میں اور 75 دہم میں۔اسی طرح سائنس کے دیگر مضامین کی نمبروں کی ترتیب بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ بالخصوص کراچی میٹرک بورڈ اور بالعموم سندھ کے دیگر بورڈز کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد ماڈل پیپرز بنا کر اپنی ویب سائٹوں پراپ لوڈ کریں ۔ تاکہ طلبہ اور اساتذہ کی مشکلات کا اذالہ ہو سکے۔ اور انھیں ابھی سے معلوم ہو جائے کہ انھیں کس طرح پڑھنا اورپڑھانا ہے۔

درج بالااٹھائےگئے نکات سے آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سندھ میں تعلیم کس طرف جارہی ہے۔ تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔کورونا نے تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اب امید کی کرن نظر آنے لگی ہے تو صاحبان اقتدار کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی غفلت نہ برتیں۔ اب تو پہلے سے زیادہ مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 145664 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More