ایک خاتون نے کسی بزرگ سے پوچھا، کے آخر میں کس طرح اپنے
خاوند کے لئے زریعہ سکون راحت و ہدایت کا سبب بن سکتی ہوں، کس طرح میرے
خاوند مجھ سے راضی رہیں گے کس طرح میں انکی انکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون
بن سکتی ہوں۔
آخر کیسے ممکن ہو جب بھی میرا خیال آئے میرے خاوند کے دل کو راحت ملے۔
بزرگ نے خاتون کی تمام باتیں اطمینان سے سننے کے بعد فرمایا،
اگر تم واقعی یہ چاہتی ہو کے خاوند کے دل میں تمھاری عزت قدر مرتبہ بلند
ہوجائے تو تمھیں چاہے تم شوہر کی پیار میں کی گئی باتوں کو کبھی اسکی غصے
میں کی گئی باتوں کی وجہ سے بھول مت جانا، اور غصے میں کہی گئی باتوں کی
وجہ سے پیار میں کی گئی باتوں سے کبھی بدزن مت ہونا۔
کبھی تمھارے خاوند کو کوئی ضرورت درپیش اور وہ پرشان ہو تو اس کی پریشانی
میں مزید اضافہ نہ کرنا البتہ اس کی ضرورت اور چاہت کے مطابق خود کو سر خم
تسلیم کردینا۔
تمھارا خاوند جو کبھی تم سے خفا ہو جائے تو اپنے اوپر اس وقت تک کے لئے
دنیا کی تمام عیش وعشاعت حرام کرلینا جب تک وہ راضی نہ ہوجائے اور راضی
کرنے کی وجہ سے اسکو پریشان نہ کردینا کے کہیں وہ ناراضگی کے عالم میں اور
مزید بےچینی اور وسوسوں کا شکار نہ ہوجائے، ایک دم خاتونے نے گھبرا کر کہا،
تو بھلا پھرمیں کیا کروں گی حضرت،
بزرگ نے ایک گہری سانس بھرتے ہوئے کہا بس جو ابھی کرا ہے یہ کبھی مت کرنا،
خاوند کو ہمیشہ سمجھنا اور اسکی بات کو شریعت حکم باری تعالی کے بعد اپنے
لئے کسی بادشاہ کی طرف سے اسکی رعایا کے لئے دئے گئے حکم سے ہرگز کم مت
سمجھنا، اس کے ہر فیصلے کو اپنے اوپر فرض کرلینا البتہ کوئی بات حکم شریعت
دین کے خلاف ہو تو تم اس کی پیروی مت کرنا اس کے علاوہ اس کی ہر بات کو حرف
آخر مانتے ہوئے اسکو بہت خوشنودی سے اور محبت سے پورا کرنا البتہ تمھاری
دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آجائے۔
تمھار شوہر جب گھر میں داخل ہو تو کبھی بھی کوئی ایسی بات کا تزکرہ کرنے سے
گریز کرنا جسے سن کر اسے مناسب نہی لگے۔ اگر اس کے چہرے پر کوئی بات اسے
ستا رہی ہو تو اس سے اہستگی سے کہتے ہوئے پوچھنا آپ کو کس چیز نے پریشان کر
رکھا ہے، کیا آپ کسی سے ناراض ہیں اگر ایسا ہے تو اپ اسے معاف کردیں کے
اللہ پاک بھی معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، یا بہار کے معماملات سے
تنگ ہیں تو فکر نہ کریں اللہ نے ہر مشکل کے بعد آسانی رکھی ہے۔
اور اگر خاوند تم سے خفا ہے ہو تو کہنا آپ کے خفا ہونے سے تو میرا ہر لمحہ
میرے لئے بطور سزا سے کم نہی دیکھیں میں تھوری نا سمجھہ ہوں اور اللہ پاک
نے بے شک مرد کے مقابل عورت کو کمزور بنایا ہے، اگر مجھہ سے کوئی خطا ہوئی
ہے تو میری رہنمائی فرمادیں البتہ میں ہمیشہ کوشش کروگی کے وہ غلطی کبھی
دوبار مت ہو جس سے آپ کو تکلیف پہنچے۔
میں آپ سے کوئی خواہش نہی رکھتی سواے اس کے ک آپ مجھہ سے راضی رہیں۔
بے شک جب خاوند راضی ہوتا ہے تو یہ ہی سب سے بڑی دولت ہے ایک سچی اور نیک
بیوی کے لئے۔
اور نیک بیوی کبھی خاوند کی بات پر کسی کی بھی بات کو فوقیت نہی دے سکتی
یہاں تک کے اپنی بھی ہر بات کو اپنے خاوند کی بات کے ماتحت رکھتی ہے اور اس
کے ہر حکم کے آگے خوبصورتی سے سر تسلیم خم کرتی ہے، اور بیوی کے اوپر شوہر
کی اطاعت فرض ہے جس طرح مرد پر عورت کی زمیداری،جب اللہ کی طرف سے فراخی ہو
تو بیوی اللہ کا شکر ادا کرے اور ہمیشہ بہتری کی دیا کرے اور شوہر کا دل و
جان سے احترام کرے بے شک نیک خواہشات، صاف نیت، اور خوب محنت و لگن سے ہی
رزق میں فراخی کا زریعہ بنتا ہے، اور اگر کبھی گھرکے معاشی حالات بہتر نہ
ہوں تو بیوی کو چاہئے وہ صبر تحمل سے کام لے، اور کبھی اپنی بھوک یا مال،
اسباب ، وزر کی وجہ سے شوہر کی طرف خواہش مندانہ نظروں سے اظہار کرنے سے
گریز کرے، بے شک اللہ پاک اپنے بندوں کو ازماتا ہے بھوک، اولاد، مال، دولت
اور زمینوں سے، پس بندوں کو چاہیئے وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے اور کبھی نا
شکری نہی کرے۔
آخرمیں بزرگ نے فرمایا کے تم اپنی خاوند کی نافرمانی سے ہر حال میں بچنا کے
شیطان کے نزدیک سب سے محبوب ترین عمل یہ ہے کے بیوی کو شوہر کے ساتھہ بہنس
و مباحسہ میں الجھائے رکھے تاکے دونوں بد دین ہوجائے، اور نا سمجھی میں ایک
دوسرے کے حقوق سے پورے کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے لئے پریشانی کا سامان بن
جائیں۔ اور ان کی آنے والی نسلیں اپنا دین سممجھنے کے لئے معزور ہو جائیں۔
یہ سب کچھہ بزرگ نے خاتون کی باتوں کہ بہت اطمینان سے سننے کے بعد کچھہ دیر
سوچنے کے بعد عرض کیا، اور کہا میرے پاس اسکا جواب پہلے سے موجود تھا پر
میں نے تمہیں کچھہ دیر سوچنے کے بعد اس لئے بتایا تاکہ تم سمجھہ سکو کے ہر
بات کا جواب بلا جھجک دینے سے گریز کرنا چاہئے اکسر ہم جانتے بوجھتے ہوے
کسی کو جلد بازی میں وقت کی نزاک کے مترادف جواب دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے
وہ بات کا جواب تو درست ہوتا ہے پر بتانے کا طریقہ غلط ہوتا ہے۔
|