الحمد ﷲ ! اﷲ رب العزت کا شکر و احسان ہے کہ اس نے اپنے
دراقدس اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے لئے عالمی وبا کورونا میں کمی کردی ہے
جس کے باعث سعودی عرب کی شاہی حکومت نے 4؍ اکٹوبر مطابق17؍ صفر۱۴۴۲سے عمرہ
اور زیارت مقدسہ کی اجازت دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔ واضح رہے کہ عمرہ مرحلہ
وار طریقہ پر بحال کیا جائے گا ، سب سے پہلے سعودی شہریوں اور مملکت میں
مقیم غیر ملکیوں کو عمرہ اور زیارت مقدسہ کی اجازت ہوگی۔ عازمین کوضروری
حفاظتی پابندی کے ساتھ عمرہ و زیارت کی اجازت ہوگی ۔ عمرے کی ادائیگی اور
روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کے لئے چار مرحلوں میں تدریجی طور دی جائے گی ۔ پہلا
مرحلہ اتوار 4؍ اکٹوبر سے شروع ہوگا۔ دوسرے مرحلہ کی شروعات 18؍
اکٹوبرمطابق یکم؍ ربیع الاول سے ہوگا ۔ اس مرحلہ میں سعودی شہریوں اور مقیم
غیر ملکیوں کو عمرہ، زیارت اور نمازوں کی اجازت ہوگی۔ روزانہ 15ہزار عمرہ
زائر اور چالیس ہزار افراد مسجد الحرام میں نماز ادا کرسکیں گے۔ اسکے علاوہ
مسجد نبوی ﷺ کی گنجائش کے مطابق75فیصد تک نمازیوں کو جانے کی اجازت ہوگی۔
تیسرے مرحلے کی شروعات یکم؍ نومبر یعنی ۱۵؍ربیع الاول سے ہوگی۔ اس دوران
سعودی شہریوں اور اندرون و بیرون مملکت غیر ملکیوں کو عمرہ، زیارت اور
نمازوں کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے تحت روزانہ 20ہزار زائر عمرہ کرسکیں گے
اور 60ہزار افراد کو مسجد الحرام میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز ادا کرنے
کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اسی تناسب سے مسجد نبوی شریف میں حفاظتی تدابیر
کے ساتھ نماز ادا کی جاسکے گی۔تیسرے مرحلہ میں بیرون مملکت سے عمرہ اور
زیارت کی اجازت تدریجی بنیاد پر ایسے ممالک کے لوگوں کوویزے جاری کئے جائیں
گے جن کی بابت وزارت صحت یہ فیصلہ دے گی وہاں کورونا کی وبا کے حوالے سے
صحت کیلئے خطرات ختم ہوگئے ہیں۔ چوتھے مرحلے کے تحت سعودی شہریوں ، مقیم
غیر ملکیوں اور بیرون مملکت کے لوگوں کو عمرہ ، زیارت مقدسہ اور نمازوں کی
سو فیصد اجازت ہوگی یہ اجازت اس وقت دی جائے گی جب متعلقہ حکام وبا کے
خطرات ختم ہوجانے کا فیصلہ کرلیں گے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وزارت
داخلہ سعودی عرب نے واضح کیا کہ اعلامیہ میں جن چار مراحل کا اعلان کیا ہے
ان کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لیا جاتا رہے گا، وہاں کی تازہ صورتحال کے
حوالے سے ان فیصلوں میں ردوبدل بھی کیا جاسکتا ہے۔وزارت داخلہ نے عمرہ ،
نماز اور زیارت مقدسہ کرنے والوں سے درخواست کی ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر کی
پابندی کریں۔ صحت ضوابط کے تحت ماسک، سماجی فاصلے اور اشیاء کو نہ چھونے کا
اہتمام کریں۔ سعودی عرب کے شاہی فرمان کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں میں
ایک نیاجوش و ولولہ پایا جارہا ہے کہ وہ پھر سے ایک مرتبہ اپنے اس مرکز اور
اقائے دوعالم ﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضری کرسکیں ۔ اﷲ تعالیٰ ہم کو بھی یہ
موقع جلد ازجلد عطا فرمائے ۔ آمین۔
امیر کویت کو امریکہ کا اعلیٰ ترین عسکری تمغہ۰۰۰ کہیں اسرائیل سے سفارتی
تعلقات کیلئے تو نہیں؟
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بحالی کس نتیجہ پر پہنچتی ہے
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اتناضرور ہے کہ جن ممالک نے ابھی
اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں دوری اختیار کررکھی ہے انہیں منانے کیلئے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی نہ کسی بہانے کی تلاش میں ہیں ۔ امریکہ صیہونی
ریاست کو خطے میں مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے جس طرح کوشاں نظر آتاہے اس سے
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عرب و اسلامی ممالک کو کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے
ساتھ تعلقات کیلئے راضی کرلے گا۔ بعض ممالک اندرونی طور پر اسرائیل کے ساتھ
تعلقات بنائے ہوئے ہیں لیکن حکومتی سطح پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں شاید
اس کی وجہ انکا متزلزل ہوتا ہوا ایمان ہے یا پھر مسلمانوں کے سامنے رسوائی
۰۰۰متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرلیے ہیں
جس کا سہرہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انکے داماد کو جاتاہے اور یہی
دوشخصیات دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو بھی منوانے کے لئے مسلسل کوشش
کررہے ہیں۔ جس کی ایک مثال اس طرح سامنے آئی ہے کہ گذشتہ دنوں امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ نے امیر کویت شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح کو امریکہ کے اعلیٰ
ترین عسکری تمغے سے نوازا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر نے یہ تمغہ
وائٹ ہاؤس میں منعقدہ خصوصی تقریب کے دوران شیخ ناصر صباح الاحمد الجابر
الصباح کے حوالے کیا۔ بتایا جاتا ہیکہ امریکہ نے خطے سمیت دنیا بھر میں
امیر کویت کے عظیم کردار اور انتھک جدوجہد کے اعتراف میں یہ اعلیٰ ترین
تمغہ دیا ہے۔ یہ تمغہ کئی عشروں سے کویت اور امریکہ کی منفرد تاریخی شراکت
کی تاجپوشی سے بھی تعبیر کیاجارہا ہے۔ امیر کویت کو یہ تمغہ ایک ایسے وقت
دیا گیا جب دونوں ملک سفارتی تعلقات کی 60 ویں سالگریہ منانے جارہے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے دیئے جانے والا یہ تمغہ اعلیٰ کمانڈر کے درجے کا ہے
۔ بتایا جاتا ہے کہ جو عسکری تمغہ امیر کویت کو دیا گیاہے وہ تاریخ میں اس
سے قبل اتحادی ممالک کے صرف گیارہ رہنماؤں کو پیش کیا گیا۔یہ اعلیٰ درجہ کا
تمغہ آخری بار 1991میں دیا گیا تھا۔کویت وہ واحد خلیجی ملک ہے جو مسئلہ
فلسطین کے منصفانہ حل ہونے تک اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہ
کرنے کی پالیسی اختیار کیا ہوا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق کویت میں بڑی
تعداد میں فلسطینی تارکین وطن اور نسبتاً مضبوط حزب اختلاف کی موجودگی کی
وجہ سے اس نے خطے میں عرب اور خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے تعلق سے بدلتی
سوچ کے برعکس اعلان کیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنے موقف پر ڈٹا
رہے گا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ویسے سعودی عرب کے فرمانروا
شاہ سلمان کی صدارت میں گذشتہ ہفتہ ہونے والے کابینہ اجلاس میں کیا گیا تھا
کہ وہ ’’فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، اپنا تاریخی موقف دہراتے ہوئے کہا
کہ مسئلہ فلسطین کے ایسے جامع اور منصفانہ حل تک رسائی کیلئے کوشاں ہیں جن
کی بدولت فلسطینی عوام 1967والی سرحدوں میں خود مختار ریاست قائم کرسکیں
اور اس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو‘‘۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ’’ہم ایسا
حل چاہتے ہیں جو عرب امن منصوبے اور بین الاقوامی قانونی قرار دادوں کے
مطابق ہو‘‘۔اب دیکھنا ہیکہ اگلا کونسا عرب ملک ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ
تعلقات بحال کرتا ہے ۰۰۰
سعودی عرب 90ویں قومی دن پرایک نئے عزم کے ساتھ۰۰۰
سعودی عرب 23؍ ستمبر کو اپنا قومی دن مناتا ہے اور اس سال وہ 90واں قومی دن
منایا ہے۔ اس موقع پر 22؍ ستمبر منگل کے روزشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی
صدارت میں سعودی کابینہ کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ 90ویں قومی دن کے
اجلاس کے آغاز کے موقع پرشاہ سلمان نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقیاتی
اور اصلاحات کے پروگرام مضبوط شکل میں نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیااور
انہوں نے قومی اتحاد، وطن سے محبت و وفاداری اور یگانگت کے جذبات کا اظہار
کرتے ہوئے سعودی عوام کو مبارکباد دی۔ شاہ سلمان نے مزید کہا کہ ’’سعودی
عرب بانی مملکت شاہ عبدالعزیز کے عہد سے لے کر اب تک قرآن و سنت پر قائم
ہے۔ آئندہ بھی اسی پالیسی پر گامزن رہے گا۔ اس کی بدولت سعودی عرب کو
علاقائی و بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے ۔ مملکت کو دنیا بھر کا اعتبار حاصل
ہے ۔ تمام بین الاقوامی تنظیموں میں سعودی عرب کو اہمیت دی جاتی ہے اور
مملکت 2020کیلئے جی 20کی قیادت کا اعزاز پائے ہوئے ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ
’’سعودی عرب امت مسلمہ اور عرب قوم کے مسائل کے حل، حرمین شریفین کی تعمیر
کے حوالے سے انتھک جدوجہد جاری رکھے گا اور ویژن 2030کے تناظر میں تاریخی
تبدیلیوں کو آگے بڑھائے گا‘‘۔سعودی عوام نے اپنا 90واں قومی دن شان و شوکت
اور جوش و خروش کے ساتھ منایااس موقع پر ملک بھر میں مختلف تقاریب کا
اہتمام کیا گیا ۔
ترک صدراردغان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلہ کو اٹھایا
ترک صدر رجب طیب اردغان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ
اجلاس میں مسئلہ کشمیر اٹھانے پر ہندوستان نے اپنے شدید ردّعمل کا اظہار
کرتے ہوئے اظہار ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر
رجب طیب اردغان نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ایک مرتبہ پھر کشمیر
کے مسئلہ کواٹھایا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس
سے ویڈیو لنک کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئیکہا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے
قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا چاہیے ، اردغان نے
کہاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر
کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ صدر اردغان نے اپنے
خطاب میں مزید کہاکہ وہ دنیا بھر میں امن کیلئے آواز اٹھاتے رہیں گے اور
اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہونگے۔ جنرل اسمبلی میں صدر ترکی طیب رجب
اردغان کی جانب سے مسئلہ کشمیرکو اٹھانے پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان
نے اپنے ردّعمل کااظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ پیغام میں کہا کہ وہ صدر ترکی رجب
طیب اردغان کے کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کے عمل کی دل کی
گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے
جائز جدوجہد میں ترکی کی مستحکم حمایت کشمیریوں کیلئے طاقت بنی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ میں ہندوستان کے نمائندہ ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ مرکز کے
زیر انتظام جموں و کشمیر کے بارے میں ہم نے صدر اردغان کے تبصرے کو دیکھا
ہے یہ ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور یہ ہندوستان کے لئے
مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے، ترکی کو کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کا
احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔اس سے قبل بھی اردغان نے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا معاملہ اٹھایا تھا اس موقع پر انہوں نے
کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام اور خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے
الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اب دیکھناہیکہ ہندوستان ترکی کے صدر کے خلاف عالمی
سطح پر کسی طرح کے ردّعمل کا اظہار کرتا ہے ۰۰۰
***
|