نظام تعلیم میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔خصوصاً اساتذہ کے
حوالے سے۔ کل تک اساتذہ اہل علم ہوتے تھے۔ وہ بچوں کو علم کی دولت سے مالا
مال کرتے تھے ۔شفقت ان کا وطیرہ تھا۔وہ طلبا میں سوچ پیدا کرتے تھے ، فہم
وفراست کو فروغ دیتے تھے۔ ان سے ملنے سے احساس ہوتا تھا کہ انسان ان سے کچھ
سیکھ رہا ہے ، کچھ حاصل کر رہا ہے ۔ ان کا علم ان کی باتوں سے دل میں یوں
اترتا تھا جیسے خوشبو کا احساس انسان کو مسرتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ تیرویں
صدی کے مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری عرف خواجہ غریب
نواز بر صغیر میں رشد وہدایت کا پیغام دیتے رہے۔ وہ ایک بہترین استاد،
انتہائی درد مند انسان اور سراپا علم وعرفان تھے۔ وہ پہلے دہلی اور پھر
اجمیر میں تعلیم دیتے رہے۔وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتے کہ اپنے
اندر دریا کی سی فیاضی، سورج جیسی گرم جوشی اور زمیں جیسی مہمان نوازی پیدا
کریں۔ان کا یہ قیمتی قول ہر استاد کا سرمایہ حیات ہونا چائیے اور سچ یہ ہے
کہ چند دہائیوں پہلے تک بہت سے ایسے استاد مل جاتے تھے جن کا یہی مطمع نظر
ہوتا تھا ، ان کا مقصد ایسے ہی شاگرد تیار کرنا تھا۔مگر چند سالوں میں ہر
چیز الٹ پلٹ گئی ہے۔ آج ہمارے استادوں میں وہ جذبے مفقود ہیں طلبا کو کیا
دیں گے۔ہم نے استاد کو پیسے اور حرص کا غلام بنا دیا ہے۔ اب استاد کو اپنے
پیشے سے نہیں اپنے گریڈ سے سروکار ہے ۔ ان گریڈوں نے استاد کو استادی سے اس
قدر بیگانہ کر دیا ہے کہ اب وہ طلبا کو کچھ دینے کی بات نہیں کرتا ۔ فقط
کچھ مالی فوائدلینے ہی کی بات کرتا ہے۔شاید اس میں استاد کا قصور کم ہے اور
ہمارے نا اہل پالیسی سازوں کا زیادہ ہے۔ یہ پالیسی ساز زمینی حقائق سے کم
واقف ہوتے ہیں۔ استاد کو اس کی علمیت سے کم اور کاغذی ڈگریوں اور کاغذی
ریسرچ پیپروں کی تعداد سے تولتے ہیں چاہے وہ سب جعلی ہوں یا جعلسازی سے
بنائے گئے ہوں جو کہ عام ہو رہا ہے۔کسی ریسرچ کا قومی سطح پر کوئی فائدہ
نظر نہیں آتا، سوا اس کے کہ ایک نالائق مافیہ اس جعلسازی کے بل بوتے پر
ترقی کے زینے پھلانگ رہا ہے ۔
پہلے استاد صاحب علم ہوتے تھے۔ آج کے استاد صاحب کمپیوٹر ہیں۔ پہلے استاد
علم عطا کرتے تھے۔ بچے کو مضمون سے واقفیت دیتے تھے۔ بچہ مضمون کو سمجھتا
تھا اور اس پر سیر حاصل بحث کرتا تھا۔سوال جواب ہوتے تھے۔ آج کا استاد کلاس
میں آتا ہے اور موضوع کے بارے میں بتانے کے بعد بچوں کو کمپیوٹر پر ریسرچ
کے حوالے کر دیتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروپ بن جاتے ہیں ۔ ہر گروپ جو سرچ کرتا
ہے ، کچھ دن باقی ساتھیوں کو بتاتا ہے، پھر دوسرا گروپ اور پھر تیسرا اور
یوں سارا سیمسٹر کٹ جاتا ہے۔ ۔ استاد کلاس میں پیچھے بیٹھا اپنے حال میں
مست رہتا ہے۔ طالب علم کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو جواب دینا استاد کا کام
نہیں شاگرد کا کام ہے کہ جواب بھی کمپیوٹر پر تلاش کیا جائے۔ کیا علم حاصل
کیا، صرف کمپیوٹر پر سرچ کرنے کاعلم۔ اصل میں کچھ علمیت نہیں کوئی سوچ بچار
نہیں ، کسی طرح کی فہم و فراست نہیں۔ استاد کی حیثیت ہی بدل گئی ہے۔ وہ
وقار اور وہ کردار جو استاد کا اثاثہ تھا،بڑی تیزی سے رخصت ہو رہا ہے۔
خصوصاً ہماری یونیورسٹیاں بڑی تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ کالجوں میں
ابھی صورتحال بہت بہتر ہے۔ وہاں پڑھانے والے موجود ہیں۔زمینی حقائق سے
ناواقف ہائیر ایجوکیشن کے سفید ہاتھیوں نے اپنی یہی پالیسی جاری رکھی تو
اگلے تین چار سال بعدسرکاری یونیورسٹیوں کے گریجویٹ ہاتھوں میں ڈگریاں لئے
پھر رہے ہوں گے اور کوئی ان کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرے گا۔
ہائر ایجوکیشن والوں نے اپنے پہلے دس سالوں میں یونیورسٹیوں سے استاد ختم
کئے ۔انہوں نے پوری کوشش کی کہ یونیورسٹیاں صرف ریسرچ تک محدود ہو
جائیں۔نتیجہ یہ ہے کہ آج یونیورسٹیوں میں صرف ریسرچر ہیں اور ایسے ایسے
ہائی برڈ ریسرچر کہ ان کے سال میں دو دو سو پیپر منظر عام پر آ رہے ہیں۔ ان
میں کیا لکھا ہے اس کا علم اسی مافیہ کو ہے جو ہائی برڈ ریسرچر تیار کر رہے
ہیں۔ کسی نے آج تک کوشش نہیں کی کہ ریسرچ کو انڈسٹری اور دوسرے فلاحی
اداروں سے جوڑ دیا جائے۔ اگر کوئی حقیقی ریسرچ ہے تو اس کا فائدہ قوم کو
بھی ہو۔ریسرچ کے نام پر ردی کے ڈھیر لگانا تو بہت بے معنی ہے ۔ دس سال میں
یونیورسٹیوں سے استاد ختم کرنے کے بعد یونیورسٹیوں میں بی ایس کلاسز کا
اجرا کیا گیا۔ پڑھانے والے موجود نہیں۔ بی ایس کے پہلے دو سالوں میں جو
کورس پڑھایا جاتا ہے ، اس کورس کے ہر مضمون میں تقریباً بیس کے قریب موضوع
ہوتے ہیں۔ اگلے دو سالوں میں وہ سارے بیس موضوع، بیس مضامین کی شکل اختیار
کر جاتے ہیں۔ ان میں کچھ مضامین لازمی اور کچھ اختیاری ہوتے ہیں۔ اصولی طور
پر بی ایس کے آخری سال میں ، اس یقین کے بعد کہ طالب علم اپنے مضمون کو
پوری طرح سمجھنے لگا ہے، ریسرچ کا طریقہ بتایا جاتا ہے ۔ مگر اب الٹ کام ہو
رہا ہے۔ یونیورسٹیاں بچے کو مضمون کی واقفیت اور علم سے روشناس کئے بغیر بی
ایس کی ابتدا ہی میں ریسرچ پر لگا دیتی ہیں۔ جو کام ایم فل میں ہونا چائیے
وہ بی ایس میں جاری ہے ۔ کوئی سوچنے ، دیکھنے اور غور کرنے کے لئے تیار ہی
نہیں کہ بی ایس ریسرچ کی ڈگری نہیں۔میں نے یونیورسٹی کے بہت سے سینئر
اساتذہ کو اس صورت حال پر پریشان پایا مگر گریڈوں کی دوڑ کے سامنے وہ خود
کو بے بس پاتے ہیں۔رہی انتظامیہ تو وہاں ساری تعیناتیاں سیاسی ہیں جو
حکومتیں وفاداری کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ جی حضوری میں لاثانی شخص آگے بڑھ کر
عہدہ حاصل کر لیتا ہے۔یہ لوگ حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ اور ان کے لئے کام
کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ایک جامعہ کے سربراہ جیسا فہم ان میں مفقود ہوتا
ہے۔ہاں ان کے ارد گرد ایسے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو انہیں یقین دلاتے
ہیں کہ آپ سے زیادہ اہل روئے زمین پر کوئی نہیں۔
پنجاب میں ستر سے زیادہ سرکاری کالجوں میں بی ایس کلاسیں جاری ہیں اور ان
کالجوں کے نتائج سرکاری یونیورسٹیوں سے بہت زیادہ بہتر ہیں۔ان کالجوں کے
فارغ التحصیل طالب علم اپنے مضامین کو بہتر سمجھتے ہیں۔ میں نے خود بھی ایک
عمر کالجوں میں گزاری ہے اور سمجھتا ہوں کہ موجودہ ایم فل اور پی ایچ ڈی
حضرات کالجوں کے پڑھانے کے تعلیمی معیار سے میچ نہیں کرتے۔ کالجوں میں
تعیناتی کے دوران ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پڑھانا نہ پڑے اور سچ یہی ہے کہ
وہ پڑھانے کے قابل بھی نہیں ہوتے ۔میں چند ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں کہ
پی ایچ ڈی کے بل بوتے پر آئے ، ترقیاں پائیں اور کمال یہ ہے کہ ایک دن بھی
کلاس روم میں جائے بغیر بیس پچیس سال سروس کر گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریسرچ کے
نام پرکاغذوں سے چند سال کھیلنے کے بعد مضمون پر ان کی گرفت انتہائی کمزور
ہوتی ہے ، پڑھائیں کیسے۔ کالجوں کی انتظامیہ اس صورتحال سے پریشان
تھی۔ہائیر ایجوکیشن پنجاب نے ایک انتہائی اچھا کام کیا ہے ۔ان کالجوں میں
پڑھانے کے لئے جو 2500 سے زیادہ نئے لیکچررز رکھنے ہیں ان کی بھرتی کے لئے
تعلیمی معیار سولہ سالہ ایم اے، ایم ایس سی یا بی ایس رکھا ہے تاکہ پڑھانے
کے لئے اساتذہ میسر آ سکیں۔ کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی
کو فوقیت دی جائے گی۔موجودہ دگر گوں حالات میں ہائر ایجوکیشن اور حکومتی
ذمہ داروں کو یونیورسٹیوں کے بارے فوری اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو
گی ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جب ریسرچ پیپرز کے نام پر ردی کاغذوں کا انبار
لگانے والے اسی ردی کے ڈھیر میں غائب ہو جائیں گے جو ایک فطری انجام ہو گا۔
مگر مجھے ڈر ہے کہ اس وقت تک ہماری تعلیمی عمارت پوری طرح زمین بوس ہو چکی
ہو گی۔
|