پاکستان میں ہر سال5 اکتوبر بطور "سلام ٹیچر ڈے" منایا
جاتا ہےاس موقع پر میں اپنی یہ تحریر اپنے تمام اساتذہ کے نام کرنا چاہتی
ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل بنایا کے میں کچھ الفاظ کو یکجا کر کے اس تحریر
کی زینت بنا سکوں س دنیا میں جنم لینے کے بعد انسان کا ناطہ مختلف رشتوں
ساتھ بندھ جاتا ہے جن میں سے کچھ خونی رشتے ہوتے ہیں تو کچھ روحانی اور
معاشرتی طور پر وجود میں آتے ہیں اور ان سب میں سب سے زیادہ قابلِ احترام
رشتہ استاد کا ہوتا ہے جسے روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے استاد دراصل کسی
بھی معاشرے کا ستون ہوتا ہے جس کے بغیر معاشرے میں انسانیت، تہذیب اور ترقی
مکمن ہی نہیں. مگر میں آجکل محسوس کرتی ہوں کے ہماری نوجوان نسل میں سے یہ
احساس ختم ہوتا جا رہا ہے اور استاد کی وہ عزت اور وہ قدروقیمت نہیں رہی جو
کبھی تھی یا جس کا ہونا لازم ہےاور یہ احساس میرے دل کو جابجا چھلنی کرنے
کے لیے کافی تھا لہزا میں نے ایسی تحریر لکھنے کا سوچا جو اساتذہ کی عزت و
مرتبے کو اُجاگر کر سکے.
اساتذہ کی قدروقیمت کا میں تھوڑا پس منظر پیش کرنا چاہوں گی. آج سے تھوڑا
پیچھے چلے جائیں ہمارے زمانے میں عزت و احترام کا یہ عالم تھا اساتذہ سے
نظریں ملانے کی بھی جسارت نہیں ہوتی تھی راہ چلتے ہوئے ان سے اک قدم آگے
بڑھ جانا تو تصور میں نہ تھا کیوں کے ہمیں شروع سے سکھایا جاتا تھا کے پیدل
چلتے ہوئے اساتذہ سے کچھ قدم پیچھے رہ کر چلو استاد کا کوئی کام کرنا سعادت
جانا جاتا تھا مثلاً استاد اگر پانی کا طلبگار ہوتا تھا تو ہر اک شاگرد کی
خواہش ہوتی تھی کہ یہ سعادت اسے نصیب ہواستاد کچھ کہتا تھا تو نظریں جھکا
کر سنا جاتا تھامجھے بہت اچھی لگتی تھی یہ روایت کے استاد کلاس میں داخل
ہوتا تو تمام بچے احترامً کھڑے ہو جاتے مگر وقت کی روانی اس خوبصورت روایت
کو اپنے ساتھ بہا لے جا رہی ہے یہ اُس زمانے کا پس منظر ہے جب گھروں سے ہی
"با ادب با نصیب اور بے ادب بد نصیب" کا درس دیا جاتا تھا..
اس زمانے سے اگر تھوڑا پیچھے کا پس منظر دیکھا جائے تو ابنِ انشاء کا اک
واقع میرے زہن میں آ رہا ہے اک دفعہ وہ ٹوکیو کی اک جامعہ میں موجود تھے
وہاں اک مقابل استاد سے محوِ گفتگو تھے آپ نے محسوس کیا کے جہاں وہ استاد
اور آپ کھڑے ہیں تمام بچے اسکے پیچھے سے اچھل اچھل کر جا رہے ہیں ابنِ
انشاء بہت حیران ہوئے اور وجہ دریافت کی تو وہاں کے استاد نے بتایا کے سورج
کی وجہ سے انکا سایہ پیچھے کی جانب ہے تو کوئی شاگرد یہ نہیں چاہتا کے
استاد کا سایہ بھی کسی کے پاؤں کے نیچے آۓ.
اسی طرح میں سکندرِاعظم اور ارسطو کا واقعہ بھی اس تحریر کا حصہ بنانا
چاہوں گی. سکندر اعظم تاریخ کا اک جانا مانا نام ہے ارسطو اسکا استاد تھا
اک دفعہ دونوں کا گزر اک جنگل سے ہوا وہاں اک ندی تھی جس کو عبور کر کے آگے
جانا تھا ارسطو نے کہا کہ ندی میں پہلے پارکروں گا کیوں کے میں استاد ہوں
مگر سکندر اعظم نے ضد کی کہ وہ پہلے جائے گا اور اجازت لے کر عبور کر گیا
اور پھر کہا کے استاد محترم ادھر سے آئیں یہاں سے خطرہ نہیں. جب ارسطو نے
ندی پار کر لی تو سکندرِاعظم سے کہا کہ مجھے دکھ پہنچا کہ تم نے ضد کر کے
میری بات کا مان نہیں رکھا سکندرِاعظم نے کہا کے میری اتنی مجال کہ میں
آپکی حکم عدولی کر سکوں اسکے بعد جو سکندرِاعظم نے کہا کاش آجکل کی نوجوان
نسل اُسے سمجھ سکے " سکندرِاعظم نے کہا کہ اگر سکندر رہے گا تو اس دنیا میں
اک بھی ارسطو نہیں ہو گا مگر اگر ارسطو رہے گا تو اس دنیا میں ہزاروں سکندر
تیار ہوں گے"
اسی طرح کہا جاتا ہےکہ جنگِ عظیم دوم میں تمام اساتذہ کو چھپا دیا گیا تھا
اور کہا گیا تھا کہ اگر استاد زندہ رہے تو بہت جلد پھر سےجرمنی اک مضبوط
اور ترقی یافتہ قوم بن کر ابھرے گا.
خلیفہ ہارون الرشید کے نام سے سب آشنا ہوں گے انہوں نے امام کسائی سے اپنے
پچوں کو پڑھانے کی درخواست کی توامام کسائی نے فرمایا کہ اُسے میرے مکان پر
بھیج دیا کریں چنانچہ شہزادے امام کسائی کے مکان پر جا کر تعلیم حاصل کرنے
لگے اک دفعہ خلیفہ کا گزر وہاں سے ہوا انہوں نے دیکھا کہ امام کسائی اپنے
ہاتھ دھو رہے ہیں اور مامون پانی ڈالتا ہے خلیفہ غضبناک ہو کر وہاں گیا اور
مامون کو کوڑا مار کر کہا او بے ادب خدا نے دو ہاتھ کس لیےدیے ہیں؟ اک ہاتھ
سے پانی ڈال دوسرے ہاتھ سے انکے ہاتھ اور پاؤں دھو(ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ
اول ص٥٦
اسی طرح اک اور دفعہ ہارون رشید نے دیکھا اسکے بیٹے مامون اور امین اپنے
استاد امام کسائی کے جوتے اٹھانے کے لیے جھگڑا کر رہے ہیں اور پھر دونوں اک
اک جوتا اٹھانے کے لیے راضی ہو گئے حضرت امام کسائی نے یہ سوچ کر کے خلیفہ
کو برا محسوس نا ہوا ہو کچھ بولنا چاہا تو خلیفہ نے یہ کہ کر چپ کروا دیا
کے میرے پچوں کو یہ سعادت حاصل کرنے دیں ہاں اگر انہیں بادشاہ کے پچے ہونے
کی وجہ سے روکا تو ناراضگی ہو گی.
حضرت علی رضی اللہ کا مشہور قول ہے "جس نے مجھے اک حرف سکھایا اس نے مجھے
اپنا غلام بنا لیا پھر اسکی مرضی کہ چاہے تو بیچ دے اگر چاہے تو آزاد کر
دے"
اس قول میں واضع طور پر استاد کو مالک اور شاگرد کو غلام کا درجہ دیا گیا
ہے.
استاد کے بلند مرتبے اور عزت کے یہ کچھ واقعات تھے کیا اب استاد کا وہ عزت
و مرتبہ ہے؟ نہیں اس وقت وہ عزت اور مرتبہ استاد کو نہیں حاصل جس کا دراصل
وہ حقدار ہے. استاد کی قدرو قیمت کے فقدان نے اک وبا کی صورت ہمارے معاشرے
کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. آج کل کی نوجوان نسل استاد کی عظمت سے کسی حد
تک نا آشنا ہےآجکل استاد کچھ کہے تو شاگرد آگے سے دس سنا کر اسے ہی شرمندہ
کر دیتا ہے اسی لیے آجکل استاد بچوں کو کچھ کہنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے
اور یہ بات ہمارے لیے لمحہِ فکریہ ہے کہ یہ ہماری نوجوان نسل کس ڈگر پر
گامزن ہے استاد کے عزت و مرتبہ میں فقدان کی جو وجوہات مجھے سمجھ آتی ہیں
ان میں ہمارے گھروں کی تربیت اور سیاسی رویہ سرِ فہرست ہے.
آجکل اکثر ہمارے گھروں میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ استاد اک تنخواہ
دار شخصیت کے علاوہ کچھ نہیں اور اسکی اتنی ہی عزت کرو جتنی اک تنخواہ دار
ملازم کی ہوتی ہے. آج کل اگر استاد شاگرد کو کچھ کہہ دے اور بچہ گھر شکایت
کر دے تو والدین بچہ کو سمجھانے کی بجائے فوراً اسی بچے کے سامنے استاد کی
عزت کو تار تار کر دیتے ہیں میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ ہر جگہ ایسا
نہیں ہے مگر بیشتر جگہ ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے.
سیاسی رویہ میں بھی استاد کی عزت کو بہت خوب پامال کیا جاتا ہے اور اس
باعزت پیشے کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی آفیسر
آ کر کسی استاد کو اسکے شاگردوں کےسامنے بے عزت کر کے چلا جاتا ہے کبھی
سوچا کے اس سے ہماری نوجوان نسل پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ اگر اک
استاد کو بھی کچھ سمجھانا ہے تو کیا اسکے شاگردوں کے سامنے ایسا کرنا ضروری
ہے؟ کیا آجکل کسی کا ظرف ہارون رشید جیسا ہے؟ یا آج کل کوئی شاگرد مامون
اور امین جیسا ہے؟ میں مانتی ہوں آجکل استاد نے بھی کسی حد تک اپنا مقام
کھو دیا ہے مگر انکی عزت واجب ہے ہم پر اس حوالے سے امام ابو حنیفہ نعمان
بن ثابت رضی اللہ کا قول قلمبند کرنا چاہوں گی " طالب علم استاد کا ادب کرے
اگر استاد سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس میں اسکی پیروی نا کرے استاد کا حق
ماں باپ اور دوسرے لوگوں سے زیادہ ہے (الخیرات الحسات مترجم ١٩٨ فتویٰ
عالمگیری بہار شریعت)
استاد اک ایسی شخصیت ہے جو علم کے پھول جمع کر کے اس کے ہار پرو پرو کر
لوگوں کے سینوں میں سجاتا ہے. ترقی یافتہ قومیں استاد کی اہمیت سے بخوبی
واقف ہوتی ہیں اسی لیے آج بھی وہاں اساتذہ کو ہر جگہ فوقیت دی جاتی ہے
عدالت ہو، سڑک ہو، یا کوئی ماڑکیٹ ہر جگہ استاد کی عزت کا خیال رکھا جاتا
ہے.
میرے خیال میں ہم ادب کے بغیر بھی علم کو حاصل کر سکتے ہیں مگر فیضانِ علم،
برکات علم اور انوار علم سے محروم رہ جاتے ہیں. میں ان والدین کو کہنا
چاہوں گی کے بچوں کو استاد کی عزت و احترام کرنا سکھائیں بے شک ہم استاد کا
ادب کر کے اپنے علم کو چار چاند لگا کر ان بلندیوں کو چھو سکتے ہیں جہاں
پہنچ کر ہم قابلِ رشک ہوں گے. ہم کسی بھی بلندی پر ہوں ہماری اس بلندی اور
پرواز میں مرکزی قردار ہمارے اساتذہ کا ہوتا ہے تو کیسے ہم پر انکا احترام
واجب نہیں؟
مجھے اپنی زندگی میں بہتر سے بہترین اساتذہ ملے ہیں اور مجھے فخر ہے کے
مجھے ایسے اساتذہ کے علوم سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا. خدا سے دعا ہے کہ
خدا ان سب اپنے کرم کی بارش برستی رکھیں اور باقیوں کو بھی ان سے فیض یاب
ہونے کا موقع ملے اور خدا ہمیں اپنے اساتذہ کی عزت و احترام کرنے کی توفیق
فرمائے (آمین)
چشم فیض اور دست و پارس جب چھو گۓ
مجھے تو مٹی سے اٹھایا اور فلک پر کر دیا
|