پچھلے دنوں ایک اور حوا کی بیٹی درندوں کی ہوس کا نشانہ
بن گئی. افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ واقعات ایک تو اتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔
کبھی بچے, کبھی عورت ,تو کبھی مردہ عورتیں۔ کسی کو بھی یہ شیطان نما درندے
نہیں چھوڑ رہے۔ جب ملک میں لاقانونیت کا راج ہوگا تو مجرم ایسے ہی بے فکر
ہوکر جرم کریں گے۔ اسلامی سزاؤں کے نام پہ ہم تھر تھر کانپنے لگ جاتے ہیں،
ہمیں نہ جانے کون کون سے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں۔ اگر زینب کیس میں
فوراً مجرم کو سرے عام سزا دے دی جاتی۔ تو لوگ عبرت پکڑتے۔ اصل بات یہ ہے
کہ ہم نے اسلام کو نماز روزے تک محدود کیا ہوا ہے اور قرآن کی تلاوت کو ہی
کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ ز ند گی کے ہر
شعبے میں ہماری رہنمائی کر تا ہے۔ عورت کو پردہ کا حکم ہے تو مرد کو بھی
نظریں نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام کی بعض باتوں پر خاص طور پر پیار
آ تاہے، جیسا کہ اسلام ہی میں ہے کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ ہم نے
لا کھوں جانوں کی قربانیاں دے کر اس لۓ یہ وطن حاصل نہیں کیا تھا کہ یہاں
ماؤں،بہنوں کی عزتیں محفوظ نہ رہیں غریبوں کو انصاف کے لیے خودکشی کرنی
پڑے۔ عورتوں کا استحصال ہر جگہ ہو رہا ہے گھر کے اندر بھی اور باہر بھی۔
حکومت کا فرض ہے کہ ایسے قانون بنائیں جس سے ان جرائم کا خاتمہ ہو سکے۔ اور
عورتیں اس معاشرے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔
|