اﷲ تعالیٰ کی ہزاروں نعمتوں میں سے زندگی بھی ایک انمول
تحفہ ہے۔کائنات کا وجود بھی زندگی ہی کی وجہ سے ہے۔جب سے یہ دنیا وجود میں
آئی ہے کوئی بھی شخص چاہے وہ سائنس دان ہو یا کوئی بہت بڑا عالم وہ زندگی
کے بارے میں کوئی بھی حتمی یا یقینی فیصلہ دے نہیں پایا۔اس لئے زندگی ایک
خوبصورت خواب ہے تو کسی کیلئے یہ ایک بدصورت خیال، کسی کیلئے یہ ایک
خوبصورت کھیل ہے تو کسی کیلئے یہ ایک تماشہ، کسی کیلئے ایک جہدوجہد کا نام
ہے اور کسی کیلئے یہ راج کرنے کی جگہ، کوئی چند لحموں میں حاصل کر گیا اور
کسی نے عمر بھر گزار دی یعنی زندگی ایک خوبصورت اور بھیانک ڈرامہ ہے۔ ہم سب
اس کے کردار ہیں ہر انسان خدا کی دی ہوئی زندگی کے مطابق اپنا کردار ادا
کرتا ہے۔ اور ایک دن نیند کی وادیوں میں کہیں کھو جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں
یہ سوچتی ہوں اگر یہ موت نہ ہوتی تو شاید یہ زندگی اتنی خوبصورت نہ لگتی۔
لیکن پھر ایک طرف خیال یہ بھی آتا ہے اس زندگی کی تو انہی لوگوں کو ضرورت
ہے جن کیلئے یہ ہر پل خوبصورت اور رنگین ہے، جنہوں نے وقت کی سردی اور گرمی
صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہے۔ ان کو کیا معلوم کے موسموں کے بدلنے کی کیا شدت
ہوتی ہے۔ اور ایسے لوگ جن کیلئے زندگی امتحان، آزمائش، آنسو، ٹھوکر، دکھ
اور درد ہی ہے۔وہ لوگ کیا کریں ان کی کیا غلطی ہے یہ لوگ کہاں جائیں دنیا
کے کس حصے میں جا کر سکون پائیں،کیا وہ مرجائیں یا خودکشی کر لیں یہ لوگ جب
دنیا میں آتے ہیں تو بہت سے امیدیں لے کر اور جب اس دنیا سے چلے جاتے ہیں
تو ناامید اور مایوس کیوں؟ یہ نظام زندگی بھی آسمان کے تاروں کی طرح ہے۔جس
طرح ہم رات کی تاریکی میں تاروں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کو ہم چھو نہیں
سکتے خوشیاں بھی ایسے ہی ہیں۔
غربت کی لکیر میں رہنے والوں کیلئے بھی یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے اس کی ایک
مثال کچھ یوں ملتی ہے تاریخ کے اوراق سے کوئی غریب جب چھوٹا تھا تو بڑا
اناپرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی لنڈے کے کپڑے پہننا پسند نہیں
کرتا تھا ایک بار اس کے والد کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو اس نے والد سے کہا
مجھے اس سوٹ کا کوٹ سلوانا ہے تو والد نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے اس نے
گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا اْن دنوں بڑا رواج تھا۔
وہ کوٹ پہن کر اپنے چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا:
’’اوئے ایکوٹ کتھو لیا ای؟
اس غریب نے کہا ’’سلوایا ہے چاچی‘‘ لیکن وہ نہ مانے اس نے قسمیں بھی کھائیں
لیکن اْن لوگوں کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی
کچھ ایسا ہی ہوا، واپس گھر آیا اور کوٹ اْتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ یہ غریب
بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔ یہ غریب جب پڑھ لکھ گیا اور ایک بینک کے بورڈ آف
ڈائریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے
ڈرائی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو اسی غریب کے کولیگز کوٹ کو
ہاتھ لگا لگا کر پوچھنے لگے ’’صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے، تے
کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے‘‘
اس نے بِنا کوئی شرم محسوس کرتے ہوئے کہا: ’’بھائی جان لنڈے چوں لیا اے‘‘
لیکن وہ نہ مانے اس نے قسمیں بھی کھائیں پھر بھی اْن کو اعتبار نہ آیا۔ اور
اب کی بار وہ رونے کی بجائے ہسنے لگا۔ سچ ہے یہ معا شرہ بڑا منافق ہے غریب
کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا
دیتا ہے۔شاعر نے کچھ اس طرح سے غربت کی پیوندکاری کی چند سطرمیں
اشعار لکھوں اور بھگودوں اشکوں میں
کاغذ کی ناؤ لیکرسمندر میں ڈال دوں
دن میں تلاشوں شب ہجراں کے نقش کو
رات میں صبح خنداں کا پہلو نکال دوں
لیکن اس کے برعکس حالات کا مارا اور زندگی سے مایوس انسان جب کسی امیر گھر
میں جاتا ہے جہاں زندگی اسے بھرپور نظر آتی ہے۔تو وہ دل ہی دل میں یہ کہنے
پر مجبور ہو جاتا ہے۔کی خدا کی جنت بھی ایسی ہی ہو گی کیا ؟ اور تصور کرنے
لگتا ہے کچھ کو دنیا میں بھی جنت اور وہاں بھی جنت۔ گھر کی آسائشوں اور
رنگینیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں سوچتا ہے قوس قزاح بھی ان سے رنگ لے کر
جاتی ہو گی۔ جوں ہی گھر میں داخل ہوتا ہے تو دل ہی دل میں خود سے سوال کرتا
ہے ہے تو موسم گرما لیکن اندر موسم سرما بنا ہوا ہے یعنی اپنی مرضی کا درجہ
حرارت ہے۔ محل نما گھر کے کسی بھی حصے میں جائیں تو زندگی کی ہر نعمت اس
میں موجود نظر آتی ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے دنیا اور آخرت کا فرق؟یہ فرق تو
ایک عام آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔جس کے گھر میں گندم کا ایک دانہ بھی ضائع
نہیں ہوتا اور یہ گندم بھی بڑی مشکل سے حاصل کر پاتا ہے، اس کے لئے ان محل
نما گھروں میں رہنے والے بڑی مشکل سے دینے پر راضی ہوتے ہیں یہ عام آدمی
بڑی محنت کے بعد حاصل کر پاتا ہے۔ اگر ہم اس مصروف دور زندگی میں گردونواح
پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اندازہ ہو گا لوگ سڑکوں پر چل تو رہے ہیں لیکن ان
کی زندگی ٹھہرسی گئی ہے۔ نہ جانے ان ترتیب شدہ سڑکوں پر اپنی بے ترتیب
زندگی کو لے کر رزق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کوئی تو ان کو آواز
دے کہ یہ وہ راستہ ہے جہاں ہر امید کی کرن اور آنسو کے بدلے خوشی ملتی ہے۔
لیکن صبح کی پہلی کرن سے لیکر رات کی تاریکی تک جب وہ شخص خالی ہاتھ گھر
جاتا ہے تو اپنا سرجھکا لیتا ہے اور اس کے خالی ہاتھ دیکھ کراس کے گھر
والوں کی زندگی بھی اداس اداس سی ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے آنسو صاف کرتے
ہوئے سونے کیلئے جب چارپائی کی طرف بڑھتا ہے تو دکھ اور پریشانی اور صبح کی
امید سونے نہیں دیتی۔ تو وہ خود سے سوال کرتا ہے کہ اﷲ تو کہتا ہے دن کام
کیلئے اور رات آرام کیلئے مگر ہمارے لئے تو رات بھی ایک کش مکش کا نام ہے۔
یہ وہ کیسے خواب ہیں جو رات کے پہر میں بنے جاتے ہیں اور دن کے اجالے میں
ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے یہ زندگی کی کٹھن راہ انسانوں کے حوصلے
اور زندگی کی امید کو پیس دیتی ہے۔ ناامیدی اور مایوسی اتنی زیادہ ہو چکی
ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی باقی دکھائی نہیں دیتی اور اتنی پریشانی بڑھ
جاتی ہے ہم ایک دن زندگی کو خدا حافظ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں
چاہئے ایسے لوگوں کی مدد کریں جو لوگ ہماری توجہ کے منتظر ہیں، زرا سی دی
ہوئی توجہ ان کی زندگی آسان بنا سکتی ہے۔ اگر قدرت نے ہمیں اتنا رزق عطا
کیا اور بے شمار سہولتیں دی ہیں تو ہمیں امیر اور غریب کے فرق کو ختم کرنا
چاہئے اور انسانیت کو ترجیح دینی چاہئے۔ایسا کرنے سے جہاں بہت زیادہ سکون
اور دل کو تسکین ملتی ہے وہیں ہم سے ہمارا رب بھی خوش ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے
معاشرہ کی حقیقت ہمیشہ کچھ تلخ ہی رہی غریب کیلئے۔
سچ ہے یہ معا شرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور
امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔کسی شاعر نے غریبی اور غربت
پر کیا خوب اشعار کہا تھا
کچھ رستے میں نوکیلے پتھر تھے کچھ ھم بھی ناتواں و لاغر تھے
کچھ غربت کے مارے تھے ہم کچھ زنگ سے بھری زنجیر تھے
|