محنت کو بجا طور پر کامیابی کی شاہ کلید سمجھا جاتا ہے۔
عام طور پر لوگ چونکہ باتیں تو کرتے ہیں لیکن محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے
ہیں اس لیے ترغیب کی خاطر محنت اور حرکت وعمل پر زور دیا جاتا ہے۔ انسانی
اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ضائع یا نظر انداز نہیں
ہوگا ۔ ارشادِ ربانی ہے:’’پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ
لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ‘‘۔ دنیوی
اثرات کی حدتک محنت کی بات درست ہے لیکن اخروی فائدے کے لیے اخلاص لازمی ہے
۔ اخلاص نیت کے بغیر کوئی عمل قبولت کے درجہ میں نہیں پہنچتا ۔ مشہور حدیث
ہے ’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘ ۔ دارومدار سے مراد دنیوی نتائج نہیں
بلکہ آخرت کا اجرو ثواب ہے ۔ دنیا میں تو اخلاس کے بغیر بھی لوگ کامیاب و
کامران ہوجاتے ہیں ۔ ریا کاروں سے متعلق نبی کریم ﷺ کی وعید تصدیق کرتی ہے
کہ اخلاص سے خالی اعمال بھی اس دنیا میں رنگ لائیں گے اور ان کے کرنے والوں
کو خوب نیک نامی و ناموری حاصل ہوگی لیکن آخرت کی میزان میں وہ پذیرائی بے
وزن ہوجائے گی ۔
رسول اکرم ﷺنے فرمایا :”(قیامت کے دن سب سے پہلے (تین قسم کے) افراد کا
فیصلہ کیا جائے گا: (شہید کو لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا
تعارف کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی پوچھے گا: تو کیا عمل کر
کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا، حتی کے شہید ہو
گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تو نے اس لئے جہاد کیا تھا
تاکہ تجھے بہادر کہا جائے اور ایسے کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم
دیا جائے گا کہ چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔عالم کو لایا
جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ اقرار کرے گا۔
اللہ تعالی فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے
تیری خاطر علم سیکھا سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو
جھوٹ بول رہا ہے، حصول علم سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور
قرآن اس لیے پڑھا کہ قاری کہا جائے، سو ایسا تو کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے
بارے میں حکم دیا جائے گا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا
جائے گا۔ پھر خوشحال اور مالدار کو لایا جائے گا ، اللہ تعالی اسے اپنی
نعمتوں کا تعارف کروائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا: تو
کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: جن مصارف میں خرچ کرنا تجھے پسند
تھا، میں نے ان تمام مصارف میں تیرے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو
جھوٹ بول رہا ہے، تیرا خرچ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تجھے سخی کہا جائے اور
وہ تو کہہ دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا، جس کے مطابق اسے چہرے
کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“
اخلاص اور محنت سے قبل آمادگی ضروری ہے اسی لیے اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے
توفیق طلب کرتے ہیں۔ آمادگی کبھی تو ضرورت ہوتی اور کبھی خوف یا شوق سے
پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً بہت سارے لوگوں کی طبیعت پر نماز فجر کے لیے بستر سے
اٹھنا گراں ہوتا ہے لیکن اگر سفر یا ملازمت کا تقاضہ تو یہ مشکل ازخود
آسان ہوجاتی ہے اور صبح تڑکے نکل پڑتا ہے ۔ یہ مجبوری کی آمادگی ہے ۔ اس
کا تعلق خوف سے بھی ہوتا ہے یعنی اگر کسی کو ڈاکٹر کہہ دے کہ ہارٹ اٹیک سے
بچنے کے لیے علی الصبح پانچ کلومیٹر چلنا لازمی ہے تو جس شخص کو آدھا
کلومیٹر کی مسجد بہت دور لگتی تھی اس کے لیے نماز فجر کے وقت پانچ کلومیٹر
چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ خوف کی آمادگی ہے ۔ اس کے علاوہ شوق کا معاملہ
بھی ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں میراتھون کی دوڑ کا سودہ سما جائے تو وہ منہ
اندھیرے دوڑنے لگتا ہے ۔ موسم کی سردی و گرمی بھی اس پر اثر انداز نہیں
ہوتی اور اس کی ساری سستی و کاہلی کافور ہوجاتی ہے ۔ دین اسلام کی پیروی
میں علم سے بڑا مسئلہ آمادگی کا ہے۔ علم دماغ پر دستک دیتا مگر آمادگی کا
تعلق دل سے ہے جو اس پر حکمرانی کرتا ہے ، بقول غالب ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
|