یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ متعصب افراد کافی خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ
اسلام کا معنی ہی سلامتی اور امن و آشتی ہے۔ کبھی کبھار اسمبلیوں اور ہاؤس
آف لارڈ زمیں بھی اسلاموفوبیائی آوازیں گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ ایک برطانوی
سیاستدان Gerard Batten نے تو دو ہزار دس میں یہ مطالبہ کر دیاتھا کہ مساجد
کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ اور دو ہزار چھ میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ
کیا تھا کہ قرآن پاک سے کچھ آیات جو جہاد سے متعلق ہیں انہیں نکالیں اور ان
سے اعلان لا تعلقی کر دیں۔ ابھی تک یہ چند آوازیں ہیں اور ملٹی کلچرل
سوسائٹی میں معاشرہ اور قانون ان کی حمائت نہیں کرتا۔ لیکن حالات دن بہ دن
تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ سخت قانون بھی بنائے جا رہے ہیں اور محسوس
ایسے ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ اگر ہم نصف صدی کے
لگ بھگ پیچھے نظر دوڑائیں تو برطانیہ و یورپ کی گزرگاہوں میں(سقوط اندلس)
کے بعد اسلام ایک اجنبی مذہب دکھائی دیتا تھا۔ لیکن قدرت کے کرشمے بھی حد
درجہ حیرت انگیز ہوتے ہیں۔ ہوا یوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان ممالک کو
تباہی و بربادی کے بعد تعمیر نو کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کیلئے مختلف ممالک
سے افرادی قوت کے معاہدے کیے۔ اسی نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان، انڈیا،
بنگلہ دیش، ترکی، مراکش اور الجزائر وغیرہ سے مسلمان ہجرت کر کے مختلف
یورپی ممالک میں آباد ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام یہاں کا نہ صرف
ایک معروف مذہب بن گیا بلکہ جگہ جگہ شراب خانے اور چرچ خوبصورت مساجد میں
تبدیل ہونے لگے۔ بیشمار لوگ سچائی اور حقیقت شناسی کی بنیاد پر دائرہ اسلام
میں داخل ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدہ اکانومسٹ کی ریپورٹ کے مطابق مغربی
ممالک میں لوگ تیزی کے ساتھ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اب
تک صرف برطانیہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں۔ ویلز
یونیورسٹی کے ایک پائے کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال برطانیہ میں
اوسطا 5200 لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت
برطانیہ میں تین ملین اور فرانس میں سات ملین مسلمان آباد ہیں ۔ برطانیہ
میں اکثریت ایشیائی مسلمانوں کی ہے جب کہ فرانس میں افریقی اور عرب مسلمان
اکثریت میں ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی، سپین، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان،
اٹلی اور بلجیم میں بھی کافی تعداد میں مسلمان آبادہیں۔ مسلمانوں کی اس
بڑھتی ہوئی آبادی اور عملا اسلام کی طرف رغبت کی وجہ سے حالیہ دنوں میں
امریکہ و یورپ سمیت پورے یورپ میں خاصی پریشانی دکھائی دے رہی ہے۔ اسی وجہ
سے کچھ لوگ نازیبا حرکات پر بھی اتر آتے ہیں۔ کبھی قرآن پاک کو آگ لگا کر
مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے تو کہیں مساجد کے مینار گرا کر مسلمانوں
سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ کے کارٹون چھاپ کر مسلمانوں
کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہے۔ اسی صورت حال کو
محسوس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم برطانیہ ٹونی بلیئر کی خوار نسبتی (سالی)
Lauren Booth نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’برطانیہ میں مسلمانوں کی
تعداد میں اضافے سے کسی کو پریشان اور خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس
حوالے سے کسی الجھن کا شکار ہیں انہیں چاہیے کہ مسلمانوں سے خوش و خرم رہیں
کیونکہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان پر امن لوگ ہیں۔ جب ان کی
تعداد بڑہے گی تو یہ ملک کیلئے اچھا ہو گا‘‘۔حقیقت یہی ہے کہ اسلام ایک پر
امن مذہب ہے جو انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو انسان
تو انسان حیوانوں سے بھی حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ اتار چڑھاؤ کے ساتھ
اسلامو فوبیا کی کئی لہروں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تعلیم
یافتہ اور فہم و فراست کے حامل لوگوں نے بلا جبرو اکراہ اپنی خوشی سے اسلام
قبول کیا۔ اب بھی وہ باعمل مسلمان کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان میں
خاصی تعداد میں خواتین کی بھی ہے جو مسلمان ہوئیں۔ ان میں سے چند ایک نام
یہ ہیں۔ عرب ٹیلنٹ ایوارڈ میں دوسری پوزیشن لینے والی امریکی پاپ گلو کارہ
Jennifer Grout نے 23سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ فلپائن کے عالمی شیرت
یافتہ پاپ گلو کار Freddie Aguilar بھی ان ہی نو مسلموں میں سے ہیں۔ جرمنی
کی طرف سے تھائی لینڈ میں سفیر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والی Yasmeen بھی
حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ برطانیہ کی مشہور ماڈل گرل Karle watts بھی سر پہ
سکارف سجائے مسلمان خاتون کے طور پر میڈیا میں اسلام کی خوبیاں بیان کرتے
دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے کئی عجوبے بھی نظر آتے ہیں۔ اسلام کی خلاف
بننے والے فلم ’’فتنہ ‘‘ کے پروڈیوسر Arnoud Van Doorn کا نوجوان بیٹا
اسلام قبول کرکے Iskander Amein بن جاتا ہے۔ اور بعد ازاں وہ خود بھی دائرہ
اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی برکات اور خوبیاں بیان کرتے دکھائی دیتا ہے۔
معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی اسلام قبول کر
چکے ہیں۔ ان سب نے کہا کہ ہم نے اسلام کا مطالعہ کر کے اور سوچ سمجھ کے
اسلام قبول کیا ہے۔ ان شخصیات سے جب قبولیت اسلام کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو
کہتے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اس میں ہمیں روحانی سکون
ملتا ہے۔ اسلامو فوبیا کا شکار لوگوں کو چاہیے کہ خوفزدہ ہونے کی بجائے
اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ایسی فضاء اب معاشرے میں بڑھتی ہوئی دکھائی
دے رہی ہے۔ ہمیں بھی حکمت عملی کساتھ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کی
ضرورت ہے ۔ جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کر کے بے گناہ لوگوں کو قتل
کر رہے ہیں ان کی دوٹوک اور واضح انداز میں مذمت کرنی ہوگی۔ اسلام پر اس
انداز میں عمل پیرا ہوں کہ عملی طور پر پتہ چلے کہ اسلام ہر دور کا مذہب ہے
اور ہر دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔
|