پاکستان کاایک شہری ‘ کسی سرکاری ادارے میں ملازم رہا
‘ یا کسی فیکٹری میں ‘ کسی بنک کا حصہ رہا ‘ یا کسی اینٹوں والے بھٹے پر
کام کرتا رہا ۔ جوانی ڈھلتے ہی بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے،جہاں اس کے
جسمانی اعضا میں اتنی طاقت نہیں رہتی کہ وہ کام کاج کرسکے ۔ تو کیاریاست کا
فرض نہیں بنتا کہ یکساں سلوک کرتے ہوئے سب کو بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی
کے ساتھ ساتھ پیٹ بھرنے اور جسم کو ڈھانپنے کے لیے معقول رقم پنشن کی شکل
میں ادا کرے ۔ اگر سرکاری افسر/ ملازمین انسان ہیں تو کیا دوسرے اداروں میں
کام کرنے والے انسان کہلانے کے حق دار نہیں ۔ اگر سرکاری افسروں کو
ریٹائرمنٹ کے بعد کل تنخواہ کا 75 فیصد بطور پنشن ادا کیا جاتاہے ‘ بنکوں ‘
فیکٹریوں اور دیگر پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو معقول پنشن کیوں نہیں ادا
کی جاتی۔یہ بندر بانٹ پاکستان میں ہر سطح پر موجود ہے ۔ میرے ساتھ مسجد میں
نماز پڑھنے والوں میں کتنے ہی عمر رسیدہ لوگ شامل ہیں ‘ کسی کو 33 ہزار تو
کسی کو 50 ہزار پنشن ملتی لیکن ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جن کوکچھ بھی نہیں
ملتااور ان کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی ۔ہمارے ایک دوست جو ریٹائرمنٹ کے
بعد کچھ زیادہ ہی خوشحال نظرآتے ہیں ایک دن میں نے ان سے اس خوشحالی کی وجہ
پوچھ ہی لی ۔انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ انہیں ایک لاکھ بیس
ہزار پنشن ملتی ہے جو تاحیات انہیں ملتی رہے گی ۔ انتقال کے اس سے آدھی
پنشن ان کی بیگم صاحبہ کو تاحیات ملے گی بشرطیکہ وہ شادی نہ کرے ۔ حکومت
لوگوں سے سوتیلی ماں والا سلوک کیوں کرتی ہے ۔ عام تاثر یہی ہے کہ سرکاری
ملازمین رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے اگر ان کو رشوت نہ دی جائے تو سامنے
پڑی ہوئی فائلوں کو گم شدہ قرار دے کر ایسی الجھن پیدا کرتے ہیں کہ اس
الجھن کو سلجھانے کے عمریں بیت جاتی ہیں ۔ اگر چہ سب پاکستانی ہیں اور سبھی
اپنی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے جہاں جہاں بھی ملازمت کرتے ہیں
‘ بہترین خدمات انجام دینے کی جستجو کرتے ہیں تو پھر یہ اونچ نیچ اور
امتیاز کیوں برتا جاتا ہے ۔ اولڈ ایج بینیفنٹ کا ادارہ بظاہر تو ایک اچھے
مقصد کے لیے قائم کیاگیا تھالیکن اس میں جمع ہونے والی ملازمین کی رقم کو
کبھی زکوۃ فنڈ میں ڈال دیا جاتا ہے تو کبھی بے ضمیر ممبران اسمبلی کو
خریدنے کے لیے یہ رقم استعمال کرلی جاتی ہے۔ کبھی سستی زمینوں کومہنگے
داموں خرید کر باقی رقم جیبوں میں ڈال لی جاتی ہے ۔ ہر دور اور ہر حکومت نے
مزدوروں اور کم تنخواہ والے ملازمین کی بہبود پر ماموراس ادارے کو لوٹنے کی
کسر نہیں چھوڑی ۔ پہلے اولڈ ایج بینیفٹ کی جانب سے 3600 روپے ماہانہ پنشن
ملتی تھی پھر 5220 روپے ہوگئی ۔اب شاید ساڑھے آٹھ ہزار ملتی ہے۔یہ بھی انکو
جن کو اولڈ ایج بینیفٹ فنڈ سے پنشن ملتی ہے وگرنہ عمررسیدہ کی اکثریت بے
وسائلی کو دلدل میں ڈوب کر موت کی وادی میں جا سوتی ہے۔ بڑھاپے شروع ہوتے
ہی روٹی سے زیادہ دوائیاں کھانی پڑتی ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے
پنشن کو 10 ہزار کرنے کااعلان کیا گیا تھالیکن یہ اعلان عملی شکل نہیں دھار
سکا ۔ یہاں میں ناروے کے ایک فیکٹری ملازم کی مثال دوں گا جو 25 سال ملازمت
کرنے کے بعد ریٹائر ہوا تو اسے لاکھوں ڈالر کا چیک تھما کر پاکستان واپس
بھیج دیا گیا ۔اب اسے ایک لاکھ بیس ہزار روپے( پاکستانی) ماہانہ پنشن
بذریعہ بنک اکاؤنٹ ملتی ہے ۔ مہذب ممالک اپنے ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک
کرتی ہیں لیکن پاکستان شایددنیا کا واحد ملک ہے جہاں پنشن بھی خیرات کی شکل
میں کسی کو بہت زیادہ اور کسی بہت ہی کم دی جاتی ہے اور کسی کو سرے سے دی
ہی نہیں جاتی ۔آجکل تو تدفین پر بھی پچاس ہزار خرچ ہوجاتے ہیں اور گورکن
قبر کھودنے کے پندرہ ہزار سے کم نہیں لیتا۔عمررسیدہ افراد میں80 فیصد لوگ
ایسے بھی ہیں جو کاشتکاری ‘ دکانداری ‘ ورکشاپوں ‘ پٹرول پمپوں میں کام
کرتے ہیں ان کو نہ دوران ملازمت معقول تنخواہ ملتی ہے اور نہ ہی60 سال کے
بعد ان کی دیکھ بھال کرنا ریاست اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔ہونا تو یہ
چاہیئے کہ 60 سال عمر سے زائد تمام پاکستانیوں ( عورت ہو یا مرد ) ریاست کم
ازکم بیس سے پچیس ہزار ماہوار نان نفقہ اداکرے اور جو لوگ بنکوں ‘ فیکٹریوں
اور ورکشاپوں پر ساری عمر توانائیاں صرف کرتے ہیں انہیں بھی سرکاری ملازمین
کی طرح مجموعی تنخواہ کا 75 فیصد بطور پنشن ادا کی جائے ۔جبکہ 60سال سے
زائد عمر کے افراد کوتمام سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں مفت علاج کی
سہولت میسر ہو۔ اگر سرکاری ملازمین پاکستان کے شہری ہیں تو پرائیویٹ اداروں
میں کام کرنے والے بھی پاکستانی ہیں ان تمام کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ریاست
مدینہ کا اولین فرض ہے ۔باقی رہ گئے وہ لوگ جو فنکار وں کے زمرے میں آتے
ہیں یعنی اداکار، مصور، خطاط ،مصنفین ،ڈرامہ رائٹر، پروڈیوسر وغیرہ جن کے
مرنے پر تو ہمارے حکمران تعزیتی پیغام جاری کرنا نہیں بھولتے لیکن جب
معاشرے کی زبان بننے والے لوگ زندہ ہوتے ہیں یا بڑھاپے کی عمر میں بے شمار
موذی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں کوئی انہیں بھول کر بھی نہیں پوچھتا۔حکومتی
خزانے صرف وزیروں مشیروں کے لیے ہی مخصوص رہتے ہیں ،یہ لوگ موجودہ ہوں یا
سابق ان کی چاروں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے ۔برادرملک ترکی بھی
ہمارا ہی جیسا ملک ہے لیکن ترک صدر اردگان نے ساٹھ سال سے زائد عمر کے تمام
عمررسیدہ افراد کے لیے نہ صرف معقول ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا ہے بلکہ جن
کے پاس رہنے کو اپنا گھر نہیں ان کو گھر بھی دیا جائے گا اور ایک بار
سرکاری خرچ پر حج بیت اﷲ کی سعادت بھی فراہم کی جارہی ہے۔یہ ہوتی ہے ریاست
مدینہ ۔صرف زبان سے کہنے سے کوئی ملک ریاست مدینہ نہیں بن جاتااس کے لیے
عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
|