زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
سیاسی ہنگامہ خیزی اپنے عروج پر ہے۔حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف
بیان بازی میں الجھے ہوئے ہیں۔ میڈیا کو سیاسی معاملات کی کوریج اور تبصرہ
آرائی سے فرصت نہیں۔ ایسے میں اہم قومی اور عوامی مسائل پر کون توجہ دے؟بہت
سے معاملات حکومتی اور صحافتی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن محسوس ہوتا ہے
جیسے سیاست کے علاوہ وطن عزیز کو کوئی اور مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ مثال کے
طور پر موٹروے سانحے کوایک ماہ سے ذیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن پولیس ابھی
تک مرکزی ملزم عابد کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ چند دن تک اس واقعے پر
شور و غل سنائی دیا۔ احتجاج ہوا۔ مگر اب یہ معاملہ قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔
ہر روز اخبارات میں جنسی زیادتی کے نئے واقعات کی خبریں پڑھنے کو ملتی
ہیں۔سیاسی بھاشن بازی تو بہت ہوئی، مگر ان واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی
سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔ملکی معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ مہنگائی نے
عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ادارہ شماریات ہر ہفتے مہنگائی بڑھنے کی خبر
دیتا ہے۔ مگر اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم
تنخواہوں کے تناظر میں سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد نے اسلام آباد میں
احتجاج کیا۔ یہ خبر بھی میڈیا پر کوئی خاص جگہ حاصل نہیں کر سکی۔ ایک خبر
یہ ہے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن پاکستان نے پاکستان میڈیکل کمیشن کو غیر
قانونی باڈی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ اعلان کیا ہے کہ پاکستان بھر کے
میڈیکل ڈاکٹرز اور طالب علم14 اکتوبر کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں
گے ۔ڈاکٹروں کو اعتراض ہے کہ پی۔ایم۔سی کی تشکیل بین الاقوامی قوانین کی کے
برعکس ہے۔ دوسری طرف سرکاری جامعات کے اساتذہ نے بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن
کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز
اکیڈیمک سٹاف ایسو سی ایشن (FAPUASA) کا کہنا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن
آف پاکستان اعلیٰ تعلیم اور تعلیمی اداروں کو درپیش مسائل حل کرنے میں
ناکام ہو چکا ہے۔تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ13 اکتوبر کو اسلام آباد میں
جامعات کے اساتذہ احتجاج کریں گے۔14 اکتوبر کو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ
میں احتجاج ہو گا۔ 15 اکتوبر کو سندھ اور پنجاب میں ، جبکہ 16 اکتوبر کو
آزاد جموں و کشمیر میں احتجاج کیا جائے گا ۔اس کے بعد 21 اکتوبر کو ملک بھر
کی جامعات کے اساتذہ اسلام آباد میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے دھرنا
دیں گے۔پاکستان بھر کی جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ اس تنظیم کا مطالبہ ہے
کہ جامعات کو درپیش بجٹ کی کمی کو دور کیا جائے۔ اساتذہ کے الاونس، انکی
تعیناتی اور ترقی سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ ایک اہم مطالبہ یہ
ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں ہونے والی مداخلت ختم کی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے
صوبہ پنجاب میں سرکاری جامعات کے وائس چانسلر صاحبان کے اختیار ات کم کرنے
کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔تجویز تھی کہ جامعات کے سینڈیکیٹ کی سربراہی
وزیر تعلیم کے حوالے ہو یا پھر وزیر اعلیٰ کے نامزد نمائندے کے۔ جامعات کی
طرف سے اسے وائس چانسلر کے اختیارا ت سلب کرنے کی کوشش قرار دیا گیا تھا۔
جامعہ پنجاب کی اکیڈیمک سٹاف ایسو سی ایشن کے سیکرٹری جنرل جاوید سمیع صاحب
کا کہنا ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر یہ قصہ زیر غور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ
غالبا ساہیوال اور جھنگ یونیورسٹی میں یہ فیصلہ نافذ بھی کر دیا گیا ہے۔ ان
مسائل کے حل کیلئے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسو سی
ایشن احتجاج اور دھرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت اور
متعلقہ ادارے ایسی نوبت کیوں آنے دیتے ہیں کہ ایک طرف ڈاکٹر مریضوں کے علاج
معالجے کو چھوڑ کر لانگ مارچ کا عندیہ دیں، جبکہ دوسری طرف اساتذہ طالب
علموں کی درس وتدریس کے بجائے دھرنے اور احتجاج کی باتیں کرنے لگیں۔ دنیا
بھر میں تعلیم اور صحت نہایت اہم اور حسا س شعبے سمجھے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں
لیکن ان شعبوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ کوئی حرج نہیں اگر ان دونوں
شعبوں سے متعلق پالیسی سازی کرتے وقت متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں
لے لیا جائے۔
اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ایک اور فیصلہ ارباب
اختیار کی توجہ کامتقاضی ہے۔ سنتے ہیں کہ جب یہ معاملہ زیر غور تھا توبیشتر
جامعات کے وائس چانسلر صاحبان نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔ اسکے باوجود
کمیشن نے ایک پالیسی تشکیل دے دی۔ اس پالیسی کی روشنی میں ہائیر ایجوکیشن
کمیشن نے دو سالہ پرائیویٹ بی۔اے ختم کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔یہ ہدایت
بھی کی ہے کہ اگلے سال سے کوئی بھی سرکاری یا پرائیویٹ یونیورسٹی ایم ۔اے
پروگرام آفر نہیں کرئے گی۔ اس کی جگہ چار سالہ ایسو سی ایٹ ڈگری پروگرام
متعارف کروایا جائے گا۔ مجھے اس ضمن میں کچھ ملاقاتوں اور مباحثوں میں شرکت
کا موقع ملا۔اعلیٰ تعلیم سے وابستہ اساتذہ اور عہدیداران سے گفتگو کے بعد
اندازہ ہوا کہ ابھی تک یہ معاملہ ابہام کا شکار ہے۔صاف محسوس ہوا جیسے
مناسب مشاورت اور منصوبہ بندی کے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی
کمیشن کے مطابق پالیسی بنانے کااصل مقصد یہ ہے کہ عمومی تعلیم کیساتھ ساتھ
نوجوانوں میں وسیلہ روزگار بننے والے ہنر (marketable skills) کو بھی فروغ
دیا جائے۔ اس اچھے مقصد کی اہمیت بجا۔ لیکن حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو
اس مقصد کے حصول کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی اور بھاری بھرکم بجٹ درکار ہے۔
اساتذہ کی تربیت (training)، ان کی استعداد کار میں اضافہ (capacity
building) ،اور تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے(infrastructure) میں بہتری
لائے بغیر اس نیک مقصد کا حصول ممکن نہیں ۔
برسوں سے ہم اپنے ہاں گریجویٹ نوجوانوں کی تعداد بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔
اس بڑھتی تعداد اور اعداد و شمار پر فخر کرتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے
کہ یہ تعداد پرائیویٹ امتحان دینے والے طالب علموں کی مرہون منت ہے۔ ملک
بھر میں ہر سال لاکھوں امیدوار پرائیویٹ امتحانات دینے کے بعد ڈگری حاصل
کرتے ہیں۔ اگر پرائیویٹ بی۔اے کی سہولت ختم کر دی جاتی ہے تو وہ لاکھوں
طالب علم کہاں جائیں گے؟ کیا ہم نے ان لاکھوں طالب علموں کے لئے نئے تعلیمی
اداروں کا بندوبست کر لیا ہے؟ پہلے سے موجود کالج اور یونیورسٹیاں اگر
اندھا دھند طالب علموں کو داخل کرنے لگیں ، تب بھی اتنی بڑی تعداد کو داخلہ
ملنا نا ممکن ہے۔ خیال رہے کہ ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں دیہاتوں کے
ساتھ ساتھ شہروں میں بھی بہت سے والدین بچیوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں
میں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان لڑکیوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کیلئے صرف
پرائیویٹ امتحان دینے کی آپشن ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے اطلاق کے بعد لامحالہ
یہ بچیاں اعلیٰ تعلیمی ڈگری کے حصول سے محروم ہو جائیں گی۔ بہت سے غریب
نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
پنجاب یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے بتایا کہ پرائیویٹ امتحان دینے
والا امیدوار کم و بیش پندرہ ہزار روپے میں ڈگری حاصل کر لیتا ہے۔ اب اگر
پرائیویٹ بی۔اے ختم کر دیا جاتا ہے تو ان غریب طالب علموں پر سستی تعلیم کے
دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ بہت سے نوجوان دن میں مزدوری یا نوکری
کرتے ہیں۔رات میں پڑھتے ہیں ۔ تاکہ پرائیویٹ امتحان دے سکیں۔کیا ان طالب
علموں کے لئے ہم نے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ اس نئی پالیسی کے بارے میں
میری محدود فہم تو یہی ہے کہ اس کے اطلاق کے بعد ہزاروں نہیں ، لاکھوں
نوجوانوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔آئین کا آرٹیکل 25-A
ریاست کو پابند کرتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور
لازمی تعلیم فراہم کی جائے۔ آج تک ہم اس شق پر مکمل طور پر عمل نہیں کر
سکے۔ہمارے کم و بیش تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جبکہ اعلیٰ تعلیم کے
مواقع محض چند فیصد کو میسر آتے ہیں۔کمیشن کے اس فیصلے کے اطلاق کے بعد ان
چند فیصد کی تعداد میں بھی واضح کمی ہو جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ کوئی
نئی پالیسی وضع کرنا مقصود ہو تو متعلقہ حلقوں کیساتھ مشاورت کو یقینی
بنایا جائے۔مجوزہ پالیسی کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی اقدام
اٹھایا جانا چاہیے۔سچ یہ ہے کہ پہلے ہی شعبہ تعلیم کی حالت کچھ اچھی نہیں
ہے۔یہ شعبہ نت نئے تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
|