کرونا کا ہجرت سکول اور حکومتی" تشویش"

لاک ڈاؤن سے معطل شدہ جملہ سماجی، معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے باوجود تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی میں تاخیر و التوا میں بظاہر بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی بابت حکومتی مشینری کی غیر معمولی حساسیئت و فکر مندی کا عامل کارفرما نظر آرہا تھا پھرقفل ٹوٹا خدا خدا کر کے، بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سخت ایس او پیز کی لازمی شرائط کے ساتھ تعلیمی اداروں کی مرحلہ وار بحالی کا اعلان کر دیا گیا، ساتھ ہی ساتھ ہر مرحلے کی بحالی کو پچھلے مرحلے کے دوران کرونا کیسز کے بڑھنے یا نہ بڑھنے کے جائزے اور اس کے اطمینان بخش نتیجے سے مشروط بھی کر دیا گیا

30 ستمبر کو تیسرے اور آخری مرحلے کے لئے پہلے دو مرحلوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی حکومتی اعلان اس امر کا غماز تھا کہ تعلیمی اداروں کے کھلنے سے ممکنہ طور پر کرونا کے کیسز کے بڑھنے کا جو خدشہ لاحق تھا وہ بفضل خدا صحیح ثابت نہ ہو سکا

یہ امر لائقِ ستائش ہے کہ بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کی فکر سے مغلوب حکومتی قوتوں نے تعلیمی اداروں کو باضابطہ طور پر کھولنے سے قبل ایس او پیز کی انتہائی باریک بینی سے تیاری اور ان کی نوک پلک سنوارنے میں بڑی عرق ریزی کا مظاہرہ کیا اور پھر بالخصوص پنجاب کے وزیر تعلیم محترم مراد راس کے بیانات کی گھن گرج اور لب و لہجے کی دھاڑ نے تعلیمی اداروں میں مجوزہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے ان کے غیر متزلزل عزم و ارادے کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں ہوا

دوسری طرف، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر کسی بھی شعبے اور جگہ پر کرونا وائیرس سے بچاؤ کے لئے ایس او پیز پر پابندی کے لے پر عزم لہجے کے ساتھ نہ اعلان سنائی دیتا ھے اور نہ ہی خلاف ورزی کرنے پر کسی قسم کی بازپرس کے ٹھوس ارادے کا اظہار نظر آتا ہے،

یہی وجہ ہے کہ چہار سو جہاں بھی نظر پڑتی ہے چاہے وہ شاپنگ سینٹرز و بازار ہوں،تفریحی مقامات و پارکس ہوں، سنیماز و تھیٹرز ہوں، فروٹ منڈیاں و ٹرانسپورٹ کے اڈے ہوں اور چاہے وہ میرج ہالز و ریسٹورنٹس ہی کیوں نہ ہوں کہیں بھی ماسک اور سماجی فاصلے کی پابندی جو ایس او پیز کے دو بنیادی ستون اور اس کے مرکزی تقاضوں کا حصہ ہیں پر عملدرآمد کا وہ منظر نظر نہیں آتا جو کرونا وائیرس سے محفوظ رہنے اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کا ناگزیر و اساسی تقاضا ہے

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومتی مشینری ان جملہ ہاے شعبہ جات میں ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے شدید غفلت و کوتاہی بلکہ تجاہل عارفانہ کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو (بچوں اور اساتذہ سمیت) کرونا وائیرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے تو دوسری طرف انہی بچوں اور اساتذہ کو کرونا وائیرس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے پوری شدومد اور تندہی بلکہ آستینیں چڑھا کر تعلیمی اداروں کو کرونا وائیرس سے بذریعہ ایس او پیز محفوظ رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرتی نظر آتی ہے... جو تضاد باہمی کا منظر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بچوں اور اساتذہ کی صحت و زندگی کے حوالے سے ان کی اعلانیہ فکر بصورت "محبت" کو بھی مشکوک بنانے کا باعث بنتی ہے .. یہ بلکل ایسا ہی ہے کہ چند سال پیشتر میرے چھوٹے بھائی کے ایک قریبی دوست جو شوگر کے مریض تھے ان کی بیوی اپنے شوہر کی محبت میں ان کی زندگی و صحت کے لے ہر روز دودھ کے ایک گلاس میں شہد کے دو بڑے چمچے ملا کر پلاتی تھی اسکا "نتیجہ" کیا نکلا بتانے کی ضرورت نہیں.. کہیں مراد راس صاحب بھی بچوں اور اساتذہ سے اسی طرح کی محبت کے "مرتکب" تو نہیں ہو رہے؟؟؟

Rauf Saeed
About the Author: Rauf Saeed Read More Articles by Rauf Saeed: 5 Articles with 5200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.