چتا سے عدالت ظلم کی داستان ِ غم

ہاتھرس معاملہ میں عدالتی کارروائی کا اتر پردیش ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میںباقائدہ آغاز ہوگیا۔ اس سے پہلے والی شب مظلوم اہل خانہ نے لکھنؤ جانے سے انکار کردیا تھا۔ منیشا کے بھائی نے کہا تھا کہ رات میں ہمارے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ؟ ہمیں انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہے۔ دہلی کے اندر نربھیا عرف جیوتی سنگھ کا مقدمہ ۷ سال چلا ۔ نربھیا کے والدین بلا خوف و خطر عدالت میں آتے جاتے رہے ۔ انہوں نے کبھی کسی اندیشے کا اظہار نہیں کیا لیکن منیشا والمیکی کے بھائی کو ایسا کیوں کرنا پڑا ؟ اس سوال کے جواب میں ہندوستان کے معاشرتی نظام کے سارے تلخ حقائق پوشیدہ ہیں ۔ نام نہاد آزادی کے 70 سال بعد بھی ایک مظلوم دلت خاندان کے لیے عدالت سے انصاف تو بہت دور کی بات عدالت میں جانے سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔ یہ ڈر بڑی مشکل سے کسی حدتک کم ہورہا تھا کہ ’بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ لگا کر مودی سرکار آگئی۔ اس کے بعد سے پچھلے 7سالوں کے مودی راج اور خاص طور پر پچھلے 3سالوں کے یوگی راج میں دلتوں اور خواتین کے اندر خوف بڑے بھیانک طریقہ پر لوٹ آیا ہے؟

انتظامیہ نے اپنی عزت بچانے کے لیے بڑی مشکل سے مظلوم خاندان کو کسی طرح راضی کیا تو صبح پانچ بجے منیشا کے والدین ، دوبھائی اور ایک بھابی ہاتھرس سے چلنے کے لیےتیار ہوئے ۔ ان پانچ لوگوں کو ۲ گاڑیوں میں سوار کیا گیا اور ان کی حفاظت کے لیے ۶ گاڑیوں کو لگایا گیا ۔ یہاں پھر سوا ل پیدا ہوتا کہ آخر ایس ڈی ایم انجلی گنگوار اور سی او شیلندر باجپائی کی قیادت میں اتنے سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت کیوں آن پڑی ؟ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر یہ تام جھام نہ مہیا کیا گیا ہوتا تو کیا یہ لوگ اس کی جرأت کرپاتے ؟ کیا انہیں از خود انصاف حاصل کرنے کے لیے ایک عام ہندوستانی شہری کی مانند عدالت سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہے ؟ اگر یہ بیچارے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی جرأت کرتے تو کیا وہ زندہ سلامت ایسا کرپاتے؟ کیا صرف نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کو انصاف حاصل کرنے حق ہے؟ کیا دلتوں کو اس بنیادی حق سے محروم کیا جاچکا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابی حضرت خباب بن ارت ؓ سے یہ کیوں کہا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ایک بڑھیا سناء سے حضر موت تک سونا اچھالتی ہوئی جائے گی اور اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوگا ۔ وہ دن ہندوستان میں کب آئے گا؟ اور کیسے آئے گا ؟؟

یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس قدر ظلم و ستم کا شکار ہونے کے باوجود منیشا کے خاندان نے عدالت سے رجوع نہیں کیا بلکہ ہائی کورٹ نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اتر پردیش پولس کے سینئرپولیس افسران کو طلب کیا ۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ نے گاندھی جی کے ایک اقتباس کا حوالہ دیا کہ ’’تمہیں ایک کسوٹی دیتا ہوں۔ جب تمہیں شک ہو یا تمہاری نفس تم پر حاوی ہونے لگے تو اسے آزماؤ۔ جو سب سے غریب، کمزور آدمی تم نے دیکھا ہو اس کی شکل یاد کرو اور اپنے دل سے پوچھو کہ جو قدم اٹھانے پر تم غور کر رہے ہو وہ اس آدمی کے لئے کتنا فائدہ مند ہوگا؟ کیا اس سے اسے کچھ فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے وہ اپنی زندگی اور قسمت پر کچھ قابو رکھ سکے گا؟ یعنی کیا اس سے ان کروڑوں لوگوں کو آزادی مل سکے گی جو بھوکے ہیں؟ تب تم دیکھو گے کہ تمہارا شک مٹ رہا ہے اور انا ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ منیشا کے غریب اور کمزور خاندان کا چہرہ یاد کرکے کیا اس سماج کے نام نہاد اونچی ذاتوں کے لوگ اپنی انا کو ٹٹول کر دیکھیں گے ؟ اس کا امکان کم ہے اس لیے اپنی سبزی خوری پر فخر کرنے والا یہ پاکھنڈی سماج انہیں انسان تک نہیں سمجھتا؟

عدالت تو یہ کہتی ہے کہ متاثرہ کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی ہے اور اس کی لاش کو آدھی رات میں خاندان کے لوگوں کی اجازت کے بغیر جلا نا غلط ہے لیکن یوگی راج کو ایسا نہیں لگتا ۔ اس کے خیال میں اگر یہ نہ کیا جاتا تو فساد پھوٹ پڑتا ۔ سوال یہ ہے کہ فساد کون کرتا؟ کیا بولگڑھی کے یہ6 دلت خاندان 60 ٹھاکروں اور براہمنوں پر حملہ کردیتے اگر نہیں تو لازم ہے کہ ٹھاکر فساد کرتے تو کیا پولس میں انہیں روکنے کی طاقت نہیں تھی جو راتوں رات یہ مکرمانہ کارروائی کی گئی ۔اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کے انتظامیہ کی اس نااہلی نے ملک کی عوام کو عدالت کے دروازے پر دستک دینے پر کو مجبور کیا ۔ مایا وتی تو سپریم کورٹ سے ازخود توجہ دینے کا تقاضہ کرکے خاموش ہوگئیں لیکن ستیاما دوبے، وکاس ٹھاکرے، رودر پرتاپ یادو اور سوربھ یادو نے عدالت عظمیٰ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کردی۔ عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ اترپردیش کے معاملے کی جانچ اور ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہو پائے گا، اس لئے اسے اتر پردیش سے دہلی منتقل کرنے کی ہدایت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سی بی آئی یا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے سبکدوش جج کی قیادت والی ایس آئی ٹی سے جانچ کرائی جائے۔ اترپردیش کی حکومت پہلے جس غیر ذمہ دارانہ انداز میں اپنے افسران کا استعمال کیا اور اب جیسے بچاو کررہی ہے اس کے پیش نظر یہ جائز مطالبہ ہے ۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اتر پردیش سرکار کی پیروی کر نے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے گواہوں کے کاتحفظ سے متعلق معلومات دریافت کی تھی اور سوال کیا تھا کہ کورٹ میں متاثرہ فیملی کی نمائندگی کون کرےگا؟ یہی عدالتی دباو تھا جس نے صوبائی حکومت کو یہ تحفظ فراہم کرنے پر مجبور کیا ورنہ کون جانے اب تک اس خاندان کو ہی غائب کردیا جاتا۔ہاتھرس عصمت دری اور قتل کے معاملہ پر سپریم کورٹ نے خود سے توجہ نہیں دی مگر حیرت انگیز طور پر اترپردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ۔ ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے بعدعدالت عالیہ کی لکھنؤ بنچ نے یہ دوسرا جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے ۔ اس معاملے میں کورٹ نے انتظامیہ پر حوصلہ افزا سخت تبصرہ کرتے ہوئے یوپی حکومت کے افسران سےجواب طلب کیا ہے ۔ منیشا کی موت کے بعد انتظامیہ کی طرف سے آناً فاناً آخری رسومات ادا کرنے کی خبروں پر نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ مجرموں نے پہلے متاثرہ کے ساتھ بربریت دکھائی اور اس کے بعد اس کے کنبہ کے دکھوں کودور کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ۔قبل ازیں، ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ کر چکا ہے کہ نہ صرف زندگی بلکہ موت کے بعد بھی پُر وقار طریقہ سے آخری رسومات کی ادائیگی ایک بنیادی حق ہے۔ لاش کو ان کے گھر لے جانا چاہئے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

عدالت عالیہ کے مطابق یہ عوامی اہمیت اور عوامی مفاد کا معاملہ ہے کیونکہ اس میں ریاست کے اعلی عہدیداروں پر الزامات عائد ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف متاثرہ افراد کا استحصال ہوا بلکہ کنبے کے انسانی اور بنیادی حقوق کی بھی پامالی ہوئی ہے۔ ہائی کورٹ نے متعلقہ افسران سے 12 اکتوبر کو پیش ہو کر جواب دینے کی ہدایت کی تھی ۔12 ؍ اکتوبر کی سماعت میں منیشا کے اہل خانہ نے عدالت میں کہا کہ پولس نے شروعات سے ہی صحیح جانچ نہیں کی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں پریشان کیا گیا اور کوئی مدد نہیں کی گئی ۔ ابتدا میں تو ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔ ان کی رضامندی کے بغیر آخری رسومات ادا کی گئیں اور انہیں اس میں شامل تک نہیں کیا گیا ۔ ان لوگوں نے ڈی ایم اپنے عدم اعتماد کا بھی اظہار کیا اور کہا انہیں پولس کی تفتیش پر بھروسہ نہیں ہے۔ ۔ اس معاملے کی اگلی سماعت ۲ نومبر کو ہوگی ۔ سماعت کے بعد مظلوم خاندان کی وکیل سیما کشواہا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آخری رسومات کے معاملے میں کورٹ نے پھٹکار لگائی ہے۔ اسی کے ساتھ عدالت نے پوچھا کہ ابھی تک تو نظم و نسق کے سبب تحفظ فراہم کیا گیا لیکن آگے اس کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا؟ اس کے معنیٰ ہیں کہ عدالت بھی اس بابت فکر مند ہے۔

عام طور ظلم کرنے کے بعد ظالم کو اس بات کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ مظلوم یا اس کی قوم انتقام لے گی لیکن یہاں الٹا معاملہ ہے کہ مظلوم کے لیے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور سڑک سے لے کر عدالت تک ہر جگہ اس بابت پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ عدلیہ کے اس مثبت رویہ پر پرینکا گاندھی نے ٹوئٹر پر پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ ، ’’الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کا فیصلہ مضبوط اور حوصلہ افزا ہے۔ پوری قوم ہاتھرس کی متاثرہ کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ یوپی حکومت کی طرف سے متاثرہ کنبہ کے ساتھ غیر انسانی، غیر منصفانہ رویہ کے درمیان اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف ہے۔‘‘اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی کے خیمے میں یوگی مخالف موریہ نے بھی اپنی تلوار میان سے باہر نکال لی۔ انہوں نے اپنے مہرے اور غازی آباد کی لونی سیٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی نند کشور گرجر کو میدان میں اتارا جو پہلے بھی یوگی کے خلاف ۱۲۰ ارکان اسمبلی کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ چکے ہیں ۔ بی جے پی رکن اسمبلی نےگورنر آنندی بین پٹیل کو لکھے خط میں ہاتھرس حادثہ کو لے کر یوپی کے ڈی جی پی سمیت ہاتھرس کے ڈی ایم اور ایس ایس پی پر 302 کی دفعہ کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاست سے قطع نظر یہ جائز مطالبہ ہے۔

اس خط کی نقل وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور ریاستی صدر سوتنتر دیو سنگھ کو بھی روانہ کی گئی ہے۔ نند کشور گرجر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد یہ پہلا حادثہ ہے، جس میں پولیس انتظامیہ نے اعلیٰ افسران کے اشارے پر ایک مبینہ آبروریزی اور نفرت آمیز طریقے سے کئے گئے قتل معاملے میں اہل خانہ کو اعتماد میں لئے بغیر ان کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہوئے انہیں ارتھی کو کندھا دینے اور مکھیہ اگنی تک نہیں دینے دیا۔یہ خط اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ اب بی جے پی بھی اس معاملے کی سیاسی تپش محسوس کرنے لگی ہے۔ یوگی کو جمہوریت کی اجتماعی آبرو ریزی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنماوں کو ہاتھرس جانے روکنا مہنگا پڑا ہے اس لیے کہ خود نریندر مودی نربھیا کے گھر جاچکے ہیں اور ان پر سیاست کا الزام لگا کر کسی نے نہیں روکا تھا ۔ اوما بھارتی نے بھی یوگی کے اس فیصلے کی تنقید کی ہے۔

بات دراصل یہ ہے اس سے قبل کوئی حکومت اس قدر عدم تحفظ کا شکار نہیں تھی کہ مخالفین کی نقل و حرکت پر ایسی پابندی لگائے ۔ ان لوگوں کو اقتدار کی محبت اور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف کچھ زیادہ ہی ہے ۔ شاید انہیں احساس ہوگیا کہ اقتدار چھن جانے کے بعد انہیں اپنی بد عنوانیوں کے سبب جیل کی ہوا کھانی ہی پڑے گی۔ ہاتھرس جانے سے روکے جانے مظاہرین نے دہلی کے جنتر منتر پر ایک عظیم الشان احتجاج کردیا ۔ اس میں درجنوں سیاسی و سماجی تنظیموں نے یوگی حکومت کے ساتھ مرکز کی مودی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس مظاہرے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے استعفیٰ دینے کے لیے کہا گیا بصورتِ دیگر مرکزی حکومت سے انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

اس کے بعد یوگی سرکا ر کچھ دباو میں آئی اور اس نے ضلع کے ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت 5 پولس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایس پی وکرانت ویر، ڈی ایس پی اور علاقے کے انسپکٹر کو واقعہ کے بعد کارروائی میں لاپروائی برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔یوگی ناتھ کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اس طرح کی نوٹنکی سے بات نہیں بنے گی ۔ دن بہ دن یوگی ادیتیہ ناتھ کو برخواست کرکے صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔ ویسے مودی سرکار سے یہ توقع کرنا فضول ہی ہے کہ وہ فی لاحال کوئی سخت اقدام اٹھائے گی لیکن بعید نہیں کہ آگے چل کر عقل کے ناخن لیتے ہوئے یوگی کو دہلی بلالے اور کوئی قدرے سمجھدار آدمی کو اس اہم عہدے پر فائز کردے ۔ اس میں مودی کی بھلائی ہے کیونکہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر جاتا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450116 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.