ہم اور ذہنی غلامی

تقریباً دو اڑھائی صدیاں سونے کی چڑیا کے باسی غلامی میں مبتلا رہے ہے انہیں دبایا گیا, کیا فرقہ پرستی میں الجھایا, گیا یا ماضی میں مذہبی تعصب میں لڑایا گیا, اپنے مفاد کے لیے لیے بکرے کی طرح ذبح کروایا گیا یہاں تک اکتفا نہ کیا گیا ان کی عصمتوں کو داغ دار کیا گیا پھر بعض کچھ پکےغلاموں کو اپنا اسلحہ کار بنا کر کر عوام میں میں مسلح کار کے روپ میں پیش کیا گیا اور حسب توفیق انھوں انگریز سرکار کی امیدوں کو پورا کیا اس کے برعکس بعض آزاد ی کے متوالوں اور دوراندیش عوام کے خیر خواہوں کو قوم کا غدارکہہ کر تختہ دار پر لٹکایا گیا یا یا جو لوگ صدیوں سے سے اکٹھے چلے آ رہے تھے جن میں باد صبا جیسی پر امن فضا موجود تھی انکی اس فضا کو گرم لو سے دبا کر نفرتی انگاروں کو ابھارا گیا .بر صغیر کی عوام کو مذ ہبی اور تفرقی فرق بتایا گیاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار صرف انگریزی قانون اور سفید فام قوم تھی نہیں بلکہ اس میں کچھ دولت کے متوالے اور اپنوں کے دشمن بھی برابر کے شریک تھے سفید قوم کا مقصد صرف مسلم بادشاہت کو ختم کرنا, برصغیر جیسے خوشحال خطے کو برباد کرنا , فرقہ پرستی کو ابھارنااور مقامی باشندوں کو اپنا غلام بنانا تھاانھوں نے اسی مقصد کو پورا کرنے کی خاطر آل سعود کو ابھارا اور نسل پرستی کی بنیاد پر سلطنت عثمانیہ کو توڑا یہی عمل برصغیر میں میں مذہبی شکل میں دہرایا گیا یا یا سب سے بڑی زیادتی جو کی گئی وہ ہمارے لوگوں کو ذہنی غلام بنایا گیاسفید فام قوم جو کہ خود کو سب سے افضل گردانتی ہے مسلمانوں میں ذہنی غلامی کا ایسا فارمولا ایجاد کرکے گی جو کے ظاہری آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ختم نہ کیا جا سکا نوآبادیاتی دور ضرور ختم ہوا مگر نوآبادیت ختم نہ کی جاسکی کی ہمارے تعلیمی نظام کو ایسا بگاڑا گیا کہ 33فیصد نمبروں سے 99 فیصد نمبروں تک پہنچ گئے مگر ذہنی غلامی کو ختم نہ کر سکے ملٹن, شیکسپیئر اور سپنسر کی جگہ فیض احمد فیض, میر تقی میر اور حضرت امیر خسرو کو نہ لا سکے اس کے صد افسوس کہ ہم راجہ رسالو اور منشی پریم چند نہ پڑھ سکے بلکہ ہم انگریزی ادب پڑھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں

آخری عہد مغلیہ میں جو حالت برصغیر کی تھی وہی حالت آج پاکستان کی بھی ہے بظاہرہم آزاد نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں غلام ہیں ذہنی غلام ہیں بظاہر ہم انقلاب لانا چاہتے ہیں ہیں لیکن حقیقت میں اسی غلامی میں خوش ہیں انقلاب صرف باتوں کا نام نہیں بلکہ رویوں میں تبدیلی کا نام ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ رد نوآبادیت کو ختم کیا جائے جب تک سوچ کی غلامی ختم نہ ہوگی تب تلک امید کا سورج روشن نہ ہوگا
 

Muhammad Ahmad
About the Author: Muhammad Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.