اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو عقلی طور پر مضبوط اور طاقتور
بنایا ہے۔ اگر انسان عقل صحیح معنوں میں استعمال کرے تو اسے اللّٰہ تعالیٰ
کی بنائی ہوئی ہر چیز میں اُس کی قدرت اور حکمت دیکھ سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ
نے کئی ایسی تخلیقات ہیں جن کو انسانی عقل اِن کی وجودیت اور کمالات کے
بارے میں جاننے سے قاصر ہے۔ اللّٰہ نے انسان کو جو آسمانی علم دینا چاہا وہ
رسول اور انبیاء کرام کے ذریعے دے دیا۔ آسمانی علم کا آغاز حضرت آدم علیہ
السلام سے شروع ہو کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔
دینِ محمدی ہی مکمل دین ھے۔ اس دین کی تبلیغ کی ذمےداری محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ ساتھ اُمّت پر بھی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف مذہبی
رہنماؤں نے دین کی تبلیغ کی اور کر رہے ہیں۔ محمد بن قاسم نے اسلام کو
برصغیر تک پہنچایا اور مسلمانوں نے کئی برسوں تک برصغیر میں حکومت کی۔ جو
کے ایک فخر قابل بات ہے۔ مگر ذوال کئ گُنا ذیادہ دردناک تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے اور برصغیر میں حکومت مغرب کے عروج کی بنیاد
تھی۔مسلمان جب بھی برسرِ اقتدار آئے بنیادی وجہ اسلام اور زوال کی کئی
وجوہات ہیں مثلاً اسلامی حکومت میں اقتدار اور طاقت کے لیے بغاوت بھائی کا
بھائی کو قتل کرنا، بیٹے کا باپ کو قتل کرنا اور ایسے بہت سے واقعات تاریخ
میں ملتے ہیں۔ ذوال کی دوسری بڑی وجہ عیاش پرستی اور ذہنی غلامی ہے۔
مغرب کی تہذیب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنا اثرورسوخ لازمی چھوڑتی ہے۔
اس کا اثر شائد رہتی دنیا تک رہے۔ یہی اس کا خاصہ ہے۔ جو کہ مغرب کے لیے
قابل فخر ہے اور ہونا بھی چاہیئے۔ مشرق کی ذلت کی وجہ بھی یہی ہے۔ سلطنت
عثمانیہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کسی حد تک مغربی دنیا کا
ہاتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پورا عرب مغربی دنیا کا غلام نظر آتا ہے۔ سر زمین
عرب مسلمان دنیا کے لیے مقدس سر زمین ضرور ہے مگر شائد اللّٰہ نے عرب دنیا
کو مسلمانوں کی نمائیندگی سے محروم کر دیا ہے۔
سر زمینِ عرب وہ سر زمین ہے جہاں آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
ایک مشکل ترین زندگی بسر کی جو کہ پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس
زمین پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امّت مسلمہ کے لیے کئی مشکلات کا سامنا
کیا یہاں تک کہ خون بھی بہا۔ سر زمینِ عرب مسلمانوں کے خلاف کیوں استعمال
ہو رہی ہے؟ وہاں شراب خانے کیوں کھولے گئے؟ وہاں فحاشی کے اڈے کیوں کھولے
گئے ہیں؟ یہ مغرب کی غلامی نہیں تو کیا ہے؟ کیا عربوں پر لازم نہ تھا کہ اس
مقدس زمین کو ان غلاظتوں سے دور اور پاک رکھتے؟ عرب اس میں ناکام ہوے اور
اب وہ اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو حالات خاصے خراب نظر آتے ہیں۔ انگریزوں نے جب
فارسی زبان کو ختم کرنے کے لیے دوسری علاقائی زبانوں کو فروع دیا تو مختلف
قبائل اور ریاستوں نےاسکا خیر مقدم کیا۔وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی علمی
دولت جو کے ذیادہ تر فارسی زبان میں اس سے محروم ہو جائیں گے۔ زبان کے ساتھ
ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت اور اثرورسوخ سے بھی محروم ہو گئے۔
برصغیر کے لوگ دوسرے خطوں کی نسبت زیادہ ذہنی غلام نظر آتے ہیں۔ انگریزوں
کو برصغیر سے واپس گئے ستر سال ہو گئے مگر ان کا اثرورسوخ ابھی کافی حد تک
باقی ہے۔ ان کے بنائے ہوئے قوانین و ضوابط پر ملکی نظام چل رہا۔ اُن کے
بنائے ہوئے تعلیمی نظام کے تحت مستقبل کے معماروں کو تعلیم دی جا رہی۔ اُن
کے بنائے ہوئے عدالتی نظام کے ذریعے انصاف کے نام پر لفظ انصاف کی بےحرمتی
کی جا رہی۔ ان کے بنائے ہوئے معاشی نظام کے تحت معیشت چلائی جا رہی۔
فوجداری نظام بھی انہی کے نظام تحط چلایا جا رہا ہے۔ اگر حکومتوں سے پوچھا
جائے تو دنیا سے مقابلہ کا کہا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا سے مقابلے کے لیے دو قدم آگے کا سوچنا پڑتا ہے
لیکن اس کا بلکل یہ مطلب نہیں کہ اپنا نظریہ، عقیدہ اور رسم و رواج چھوڑ
دیا جائے۔ آج ہر ملک اپنے آپ کو ایک آزاد اور خود مختار ملک قرار دیتا ہے
جو کہ شائد غلط ہے۔ کیونکہ ایک آزاد ریاست کا مطلب ہی نظریاتی، ثقافتی،
مذہبی ، خارجہ پالیسی اور قانون سازی کی آزادی ہےجو کہ کئی نام نہاد آزاد
ممالک میں نظر نہیں آتی۔ یہ مغربی دنیا کی غلامی ہی تو ہے۔
مسلم دنیا کی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ورلڈ آرڈر کو تبدیل
کر کے رکھ دیا۔ علمی خدمات ایسیں کے پوری دنیا اس سے مستفید ہوئی اور کئی
ایسے فلاسفر، سائنسدان اور دانشمند جن کو آج بھی دنیا عزت و احترام کی نگاہ
سے دیکھتی ہے۔
اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم پہ مغربی
دنیا کی غلامی لازم ہے؟ کیا ہم دنیا میں دوبارا سرخرو نہیں ہو سکتے؟ اور
آخر میں کیا ہم واقعی آزاد ملک ہیں؟
|