دنیا چین کے 14ویں پنج سالہ منصوبے کی منتظر

چین کے منفرد پانچ سالہ منصوبہ بندی نظام نے ایک جدید اور خوشحال چین کی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔اس منصوبہ بندی کے دوران وسیع اتفاق رائے ایک کلید ہے ،فیصلہ سازی کے عمل میں چینی عوام ، ہزاروں تھنک ٹینکس ،حکومتی تنظیموں ،جامعات ،ممتاز دانشوروں و ماہرین کی آراء شامل کی جاتی ہے جبکہ نچلی سطح کے نمائندوں کی تجاویز کو بھی نمایاں اہمیت دی جاتی ہے تاکہ مفاد عامہ کے لیے موئثر اور ٹھوس اقدامات سامنے آ سکیں۔ دیگر دنیا کے برعکس جہاں زیادہ تر ووٹرز کو راغب کرنے یا پھر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیےایسے منصوبے سامنے لائے جاتے ہیں، چین میں عوامی خواہشات اور تقاضوں کو منصوبہ سازی میں فوقیت دی جاتی ہے۔

دنیا چین کے 14ویں پنج سالہ منصوبے کی منتظر

چین کی جانب سے اقتصادی سماجی ترقی سے متعلق 14ویں پنج سالہ منصوبے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ 2021تا 2025تک تشکیل دیے جانے والے اس منصوبے کی نہ صرف چین بلکہ دیگر دنیا کے لیے بھی اہمیت ہے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کووڈ۔19کے باعث بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے ۔چین کا پانچ سالہ منصوبہ ایک ایسا جامع لائحہ عمل ہوتا ہے جس میں آئندہ کے اہم اہداف کے تعین سمیت مستقبل میں ترقی کی سمت طے کی جاتی ہے۔دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے زیادہ آبادی کے حامل ملک کی حیثیت سے چین کی منصوبہ بندی میں تمام ترقیاتی امور کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔چین اور دیگر بڑی معیشتوں میں اس لحاظ سے بھی فرق ہے کہ چین بدستور ایک ترقی پزیر ملک ہے اور ملک میں اب بھی "چالیس کروڑ" آبادی کا تعلق متوسط طبقے سے ہے لہذا منصوبہ بندی میں ایسے تمام عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو نہ صرف چینی عوام بلکہ طویل المیعاد بنیادوں پر دیگر دنیا کے مفاد میں بھی ہوتے ہیں۔

بلاشبہ چین کے منفرد پانچ سالہ منصوبہ بندی نظام نے ایک جدید اور خوشحال چین کی مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔اس منصوبہ بندی کے دوران وسیع اتفاق رائے ایک کلید ہے ،فیصلہ سازی کے عمل میں چینی عوام ، ہزاروں تھنک ٹینکس ،حکومتی تنظیموں ،جامعات ،ممتاز دانشوروں و ماہرین کی آراء شامل کی جاتی ہے جبکہ نچلی سطح کے نمائندوں کی تجاویز کو بھی نمایاں اہمیت دی جاتی ہے تاکہ مفاد عامہ کے لیے موئثر اور ٹھوس اقدامات سامنے آ سکیں۔ دیگر دنیا کے برعکس جہاں زیادہ تر ووٹرز کو راغب کرنے یا پھر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیےایسے منصوبے سامنے لائے جاتے ہیں، چین میں عوامی خواہشات اور تقاضوں کو منصوبہ سازی میں فوقیت دی جاتی ہے۔

منصوبے کی تشکیل کے بعد چین کی اعلیٰ قیادت اہداف پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہے جس کا اندازہ 13ویں پنج سالہ منصوبے میں طے شدہ اہداف کی مقررہ مدت میں تکمیل سے لگایا جا سکتا ہے۔چین کی مستقل اقتصادی ترقی میں پنج سالہ منصوبے سے متعلق محتاط اور حقیقت پر مبنی پلاننگ ایک اہم کلید ہے۔13ویں پنج سالہ منصوبے کے دوران دنیا نے دیکھا کہ چین میں کاروبار کے حوالے سے ایک سازگار ماحول تشکیل دیا گیا ہے ،بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کاروباری لاگت کو نمایاں حد تک کم کرتے ہوئے خدمات کی فراہمی کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ بیرونی کاروباری اداروں بالخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں کا چین پر اعتماد بڑھتا جا رہا ہے اور چینی منڈی سے انھیں بے شمار ثمرات حاصل ہو رہے ہیں۔2016سے2020تک تشکیل دیے جانے والے 13ویں پنج سالہ منصوبے کی اہم کامیابیوں کا اگر ایک مختصر جائزہ لیا جائے تو مختلف بیرونی چیلنجز کے باوجود چین نے اہم شعبہ جات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔اس عرصے میں چین نے معاشی ڈھانچے کی بہتری ،سپلائی سائیڈ سے متعلق اصلاحات اور مزید کھلے پن کے تحت اعلیٰ معیار کی ترقی کو یقینی بنایا ہے ، جس سے لوگوں کے معیار زندگی میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے۔ گزشتہ برس 2019میں چین کی جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 14.8ٹریلین ڈالرز رہی ہے جو عالمگیر معیشت کا 16 فیصد بنتا ہے جبکہ عالمی معاشی شرح نمو میں چین کا شیئر تقریباً 30 فیصد ہے۔ان پانچ سالوں میں چین نے ترقی کے معیار میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے "تیزرفتار ترقی" سے "اعلیٰ معیاری ترقی" میں بدل دیا ہے۔مزید کھلے پن اور اشتراکی ترقی کے تحت بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک کی اقتصادی سماجی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا گیا ہے۔اس کی ایک حالیہ مثال لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ ہے جس سے مقامی سطح پر روزگار کے سات ہزار سے زائد مواقع میسر آئے ہیں جبکہ شہریوں کو جدید ، محفوظ اور ماحول دوست سفری سہولت میسر آئی ہے۔چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اس وقت عالمی سطح پر تعاون کے ایک نئے نمونے میں ڈھل چکا ہے جسے عالمی اداروں بشمول اقوام متحدہ نے بھی بھرپور سراہا ہے۔

تیرہویں پنج سالہ منصوبے کی مزید کامیابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو چین کی انسداد غربت مہم ایک بہترین مثال ہے۔2016سے2019تک چین کے دیہی علاقوں میں پانچ کروڑ سے زائدافراد نے غربت سے نجات حاصل کی ہے جبکہ غربت سے چھٹکارہ پانے والے غریب افراد کی فی کس آمدنی بھی 1466.8ڈالرز ہو چکی ہے۔انسداد غربت کے لیے چین نے بہترین مالیاتی پالیسیاں اپنائیں ،کسانوں کو زرعی قرضے فراہم کیے گئے ،غریب کاونٹیوں کو تعلیم ،صحت ،رہائش اور ٹیکنالوجی کی جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا جبکہ دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں رہنے والے افراد کی محفوظ مقامات پر دوبارہ آبادکاری کے ساتھ ساتھ اُن کے مستقل روزگار کا بندوبست بھی کیا گیا۔

چین اس وقت تیزی سے ایک شفاف اور گرین معیشت کی جانب گامزن ہے اور ان پانچ سالوں میں چین نے ماحولیاتی شعبے میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ تحفظ ماحول کی خاطر شفاف توانائی ،الیکٹرک گاڑیوں،گرین صنعتوں کو فروغ ملاہے، کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور ماحول دوست ترقی چین کی نمایاں ترجیح بن چکی ہے۔ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ2060تک کاربن سے پاک ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ان دوررس اہمیت کی حامل کامیابیوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چین کے 14ویں پنج سالہ منصوبے کی بدولت جہاں چین کی اقتصادی سماجی ترقی کو فروغ ملے گا وہاں چینی دانش کی بدولت عالمگیر مشترکہ ترقی اور درپیش عالمی مسائل کے حل میں بھی نمایاں مدد ملے گی بالخصوص کووڈ-19کے تناظر میں اقتصادی بحالی کے عمل میں چین کا کردار کلیدی رہے گا۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616395 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More