تحریر: مہوش کرن، اسلام آباد
جس طرح لڑکیاں چہرے کے بناؤ سنگھار کو بہت اہمیت دیتی ہیں، اسی طرح اپنے
ہاتھوں کو بھی سجانے کی فکر کرتی ہیں مثلاً چوڑیاں اور انگوٹھیاں پہننا،
خاص مواقع پر مہندی لگانا یا عام طور پر نیل پالش لگانا۔ (چاہے تو ناخن
بڑھا کر، چاہے چھوٹے ناخنوں پر ہی سہی۔)
الحمدﷲ اس رب نے مجھے نہایت متناسب ہاتھوں سے نوازا، لمبی لمبی انگلیاں اور
قدرتی طور پر بڑے اور چمکتے ناخن۔ اسکول و کالج کے زمانے سے ہی سب سہیلیاں
و کزنز تعریف کرتے نہ تھکتے تو خود بہ خود دل میں لمبے ناخن رکھنے کا شوق
پروان چڑھتا گیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ناخن لمبے رکھنے کا بھوت سر پر
چڑھتا گیا اور یقین کیجیے کہ ناخن لمبے رکھے بھی یعنی سب کی فرمائش و ستائش
پہ لمبے ناخن اور وقتاً فوقتاً نیل پالش بھی لگائی اور جو سنت ہے کہ صفائی
کے لیے ناخن کاٹنا ضروری ہے اس پر کبھی عمل کیا تو کبھی نہیں۔ماں باپ کے
ٹوکنے پر کبھی سمجھ آ جاتا اور کبھی جوش غالب رہتا۔ یونیورسٹی میں تو یہ
شوق عروج پر جا پہنچاچونکہ نماز پڑھنے کی عادت بچپن سے تھی اس لیے نیل پالش
ریمور ہر وقت موجود رہتا اور الحمدﷲ اس وجہ سے نماز کبھی نہ چھوٹتی۔
افسوس صد افسوس کہ دوسری طرف علم و آگہی کی ایسی کمی تھی کہ ناخن نہ کاٹنے
کی بیماری جڑ پکڑ چکی تھی بعد ازاں اچھی محافل سے اس بیماری سے بھی جان
چھوٹی، ناخن ہمہ وقت کٹے رہنے لگے تو کئی جسمانی و روحانی مسائل خود بہ خود
حل ہوگئے۔ اگر نیل پالش کے ساتھ ہی دنیا سے رخصتی ہوجائے تو یہ الگ پریشانی
بن سکتا ہے۔
سجنا، سنورنا اور قابل دید نظر آنا ہر عورت کا فطری شوق ہے لیکن ناخن
بڑھانا اور نیل پالش لگانا کتنا غیر فطری عمل ہے جبکہ بھنویں بنوانا اور
وِگ لگوانا جیسے کام واضح طور پر خلق میں تبدیلی ہے۔ اِن باتوں کا علم بھی
بچپن سے ہی لڑکیوں کو دینا چاہیے۔اگر چاہیں تو ناخنوں پر نیل پالش لگانے کا
شوق مہندی سے بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر نہیں تو یہ کوئی اتنی ضروری چیز
بھی نہیں کہ جس کے بغیر تیاری و خوبصورتی نامکمل لگے۔ گھروں میں مائیں اپنی
بیٹیوں کو سجنے اور خوبصورت لگنے کے جائز طریقوں سے خود آگاہی دیں، جلد کو
صاف ستھرا رکھنے کے طریقے اور فائدے بتائیں اور ساتھ ہی خوبصورتی اور بناؤ
سنگھار کو ڈھانپنے یعنی پردے کی آگاہی و شوق بھی دیں۔ پھر چاہے اپنے ساتھ
پارلر لے جائیں یا گھریلو ٹوٹکے اپنائیں، اِس میں قطعاً کوئی برائی نہیں،
بلکہ اِس طرح بیٹیاں ماؤں سے قریب ہوتی ہیں کہ ہماری والدہ تو ہماری اتنی
اہم ضرورت کو خود ہی سمجھتی ہیں۔ اس طرح بچیاں ماں کے ساتھ جڑی رہتی ہیں
اور بھانت بھانت کی دوستوں کے ساتھ پارلر جا کر کوئی غلط یا غیر شرعی کام
کرنے، نامناسب سروس کروانے اور غلط معاملات میں ملوث ہونے سے بھی محفوظ
رہتی ہیں۔
اسی ضمن میں پیل آف نیل پالش کا ذکر بھی ضرور کروں گی۔ اکثر مائیں یہ والا
پروڈکٹ اپنی بچیوں کو لا دیتی ہیں اور خود بھی استعمال کرتی ہیں کہ فٹافٹ
صاف کر کے نماز پڑھ لیں گے۔ بہت سے لوگ یہ کرتے بھی ہیں لیکن یقین مانیں
بہت سے نمازی گھرانوں میں اِسی پیل آف کی وجہ سے نمازیں قضا ہوتی بھی دیکھی
ہیں۔
اس کے علاوہ نیل آرٹس کے نام پر بھی شوق عروج پر نظر آتے ہیں اور پارلروں
میں ان معمولی سروسز کے لیے باقاعدہ طور پر مہنگے چارجز لیے جاتے ہیں۔ اس
میں زیادہ تر جن ناخنوں پر ڈیزائننگ کی جاتی ہے وہ بھی عموماً نقلی ہوتے
ہیں۔ مطلب یہ کہ پہلے قدرتی ناخنوں پر نقلی ناخن مضبوطی سے چپکائے جاتے ہیں،
کلائنٹ کی پسند سے ان کی تراش خراش کی جاتی ہے اور پھر اس پر نَگ وغیرہ
چپکائے جاتے ہیں۔ جتنی اقسام کی یہ ڈیزائننگ ہوتی ہیں، اتنی ہی قسم کے فیشن
ایبل نام بھی ہوتے ہیں۔
پہلے صرف خاص طور پر دلہنوں کو نقلی ناخن لگانے کا رواج ہوا تھا، جو کہ
لڑکیاں شوق میں لگوا لیتی کیونکہ ان کے اپنے ناخن لمبے نہ ہوتے تھے اور رات
کو ہی اتار بھی دیا کرتی تھیں لیکن اس طرح معاشرتی ترقی کے نام پر چیزیں
بدلتی چلی جاتی ہیں اور وہ انوکھی چیزیں عمومی استعمال میں آ جاتی ہیں۔ اب
سوچنے کی بات ہے کہ اس طرح کے نیل آرٹ کے ساتھ کون سا وضو، اور کیسی نماز ؟
اور تو اور اب بریتھ ایبل (Breth Able) نیل پالش بھی مسلم معاشرے میں بہت
زور پکڑ رہی ہیں کیونکہ بنانے والوں کے بقول پانی اس کے اندر اتر کر ناخن
کو گیلا کر دے گا۔ لیکن ہوشیار رہیے یہ صرف دکھاوا ہی ہے۔ بھلا غیر ملکی
کمپنیوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ وضو کا خیال کر کے میک اپ ایجاد کریں اور اگر
کوئی مسلم کمپنی بھی ایجاد کرتی ہے تو سوچیں کہ ہم وضو کرتے ہوئے کتنی دیر
تک ٹھہر کر پانی کے نیل پالش سے گزر کر ناخن تک پہنچنے کا انتظار کریں
گے؟اب کیا نیل پالش کی وجہ سے وضو یعنی نماز داؤ پر لگائیں گے؟اگر آپ چاہیں
تو خود آزما کر دیکھ لیں۔ ایک بٹر پیپر پر بریتھ ایبل نیل پالش لگائیں، پھر
اس نیل پالش والی جگہ پر پانی ٹپکائیں، ٹھیک نیچے اسی مقام پر اگر بٹر پیپر
گیلا ہو تو مطلب نیل پالش واٹر پروف نہیں ہے ورنہ حقیقت آپ کے سامنے ہے۔
پچھلے ہفتے ایک فیس بک پیج پر ایسی ہی بریتھ ایبل نیل پالش کی اشتہاری مہم
جاری تھی۔ میں نے وہاں دلائل دیے، کئی خواتین مجھ سے سوال و جواب پوچھ کر
اپنے ابہام دور کرنے لگیں، کچھ قائل بھی ہوئیں۔ مگر سوشل پیج والوں کو بہت
غصہ آرہا تھا، شروع میں تو وہ بھانت بھانت کے فتوے پیش کرتے رہے اور پھر
آخرکار انہوں نے مجھے اس پیج پر بلاک کر دیا۔ بہرحال مجھے یہ تسلی ہے کہ
بلاک ہونے سے پہلے جتنی مہلت ملی میں نے صحیح بات آگے پہنچانے کی کوشش ضرور
کی۔ یہ آرٹیکل بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔
شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے خوبصورت نظر آنا ہر عورت کا فطری حق ہے
لہٰذا اپنی سوچ اور نظریے کو وسیع کریں، سجنے سنورنے کے لیے اہتمام ضرور
کریں لیکن ایسے نازک معاملات کو آپس میں خلط ملط نہ کریں۔ مہذب معاشرے کی
بچیاں مستقبل کی معمار مائیں ہوتی ہیں۔ انہیں بامقصد زندگی دینے اور ان کے
اندر صحیح سمت میں مثبت و تخلیقی شوق پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے نا کہ ایسے
شوق جو انہیں غلط راستے پر لے جائیں وہ اپنائے جائیں۔
|