۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء کی قائم شدہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کو
آج (۲۹ اکتوبر ۲۰۲۰ء) ۱۰۰ سال مکمل ہوگئے۔ ہمارے اسلاف کے خلوص اوراُن کی
عظیم قربانیوں نے اس ادارہ کو ایسے بلند مقام تک پہنچادیا کہ آج جامعہ ملیہ
اسلامیہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی معیاری یونیورسٹیوں میں سے ایک شمار
کی جاتی ہے۔ ۹ فیکلٹیوں، ماس کمیونیکیشن جیسے مختلف سینٹروں اور پانچ
اسکولوں پر مشتمل اس وقت جامعہ میں مختلف مذاہب کے ۲۵۰۰۰ طلبہ وطالبات
بالخصوص مسلمان بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسی ماہ
تین اہم نئے شعبہ کھولے گئے ہیں: ۱)Foreign Languages۔ ۲) Hospital
Management۔ ۳) Environment Science۔ان شاء اﷲ ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہے
گا۔ غرضیکہ نرسری سے پی ایچ ڈی تک ہرمرحلہ کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں
دی جاتی ہے۔ جامعہ میں لاکھوں کتابوں پر مشتمل ذاکر حسین لائبریری ہے، جو
نئے طرز پر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ۳ ملین ڈالر کے
عطیہ سے ۲۰۰۶ء میں تیار ہوئی ہے۔ عرصہ دراز سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک
میڈیکل کالج کا مطالبہ کیا جارہا ہے، مختلف حکومتوں کی طرف سے وعدے وعود
بھی کئے گئے، خاص کر اکھلیش یادو کی سابقہ حکومت نے اس کا مکمل یقین دلایا
تھا کہ جامعہ کیمپس سے متصل اترپردیش سرکار کی خالی جگہ میڈیکل کالج اور
ہسپتال کے لئے دی جائے گی مگر ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ جامعہ
ملیہ اسلامیہ کے ۱۰۰ سال مکمل ہونے کی مناسبت پر ہم موجودہ سرکار سے مطالبہ
کرتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کی تایےد سے شیخ الہند مولانا محمود حسن کی
سرپرستی میں مجاہدین آزادی کے ذریعہ قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں
میڈیکل کالج کے لئے زمین اور درکار رقم کی فراہمی کا انتظام کیا جائے۔
اگست ۲۰۲۰ء میں ہندوستان کی مرکزی وزارتِ تعلیم نے ملک کی سینٹرل
یونیورسٹیوں کی جو فہرست جاری کی تھی اس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
کا نام سرفہرست تھا، یعنی ۲۰۲۰ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ہندوستان کی سب سے
معیاری یونیورسٹی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ۹۰ فیصد نمبرات حاصل کرکے پہلی
پوزیشن حاصل کی جبکہ راجیو گاندھی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بالترتیب ۸۳ فیصد، ۸۲ فیصد اور ۷۸ فیصد نمبرات
حاصل کئے۔ یہی وہ جامعہ ہے جسے ۲۰۱۹ء کے اواخر اور ۲۰۲۰ کی ابتدا میں بعض
شر پسند عناصر نے بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔ مگر قابل مبارک باد ہیں
جامعہ کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ جنہوں نے ملک مخالف طاقتوں کی گولیوں
کا جواب گولی سے نہ دے کر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر دیا۔ ملک میں مختلف
درپیش مسائل کا مقابلہ ہم تعلیم حاصل کرکے ہی کرسکتے ہیں۔
۱۹۲۰ء میں مہاتما گاندھی کی سرپرستی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن
کے دست مبارک سے قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ آج دنیا کی اہم یونیورسٹیوں میں
سے ایک ہے، جس کے قیام اور اس کی آبیاری کے لئے حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار
احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ، مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین،
پروفیسر محمد مجیب اور دیگر اکابرین کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک تعلیمی درسگاہ نہیں بلکہ مختلف علوم وفنون کا
ایسا علمی گہوارہ ہے جسے ہمارے اسلاف نے خون جگر سے سینچا اور پروان
چڑھایا۔ اِس ادارہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے بانیان ہندوستان کی جنگ آزادی
میں بھرپور حصہ لینے والے ہیں۔ جامعہ کا قیام اُس وقت اور اُن حالات میں
عمل میں آیا جب آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔ جامعہ کے اکابرین آزادی
کی تحریک سے براہِ راست جڑے ہوئے تھے۔ غرضیکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام
ہندوستان کی جنگ آزادی کے بطن سے ہوا ہے۔ اسی وجہ سے جامعہ کے خمیر میں
سیکولرازم، آزادی، حب الوطنی، روشن خیالی اور رواداری پہلے ہی دن سے موجود
ہے۔ جامعہ کے قیام کا مقصد جہاں اقلیتوں میں تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا
ہے وہیں اردو زبان کا فروغ بھی اہم مقصد ہے، اسی وجہ سے ابتدا ہی سے بڑے
بڑے اردو شعراء وادباء جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زیارت کیا کرتے تھے۔
اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ پوری دنیا میں تعلیمی میدان میں خاص شناحت رکھتی
ہے۔ جامعہ سے تعلیم حاصل کرکے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد اندرون و
بیرون ملک بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہوکر جہاں برسر روزگار ہیں وہیں قوم وملت
کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دنیا کی عظیم شخصیات کو جامعہ نے ڈاکٹریٹ کی
اعزازی ڈگری سے بھی نوازا ہے۔ جامعہ کے متعدد شعبوں بالخصوص انجینئرنگ
کالج، ٹیچرس ٹریننگ کالج، ماس کمیونیکیشن سینٹر، سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ، شعبۂ
عربی، شعبۂ اردو وغیرہ کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جامعہ کے
طلبہ دنیا کے چپہ چپہ پر مختلف میدانوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام روشن
کررہے ہیں۔
جناب سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی تھی،
لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سرسید احمد خان کو انگریزوں
سے قربت حاصل تھی۔ اس لئے مجاہدین آزادی کو اس پر تشویش تھی، لہٰذا
ہندوستان کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں نے بھی علی گڑھ میں ہی ایک
تعلیمی ادارہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘ کی بنیاد ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو علی گڑھ
کالج کی جامع مسجد میں رکھی۔ پانچ سال کے بعد ۱۹۲۵ء میں جامعہ دہلی کے قرول
باغ کے کرایہ کے مکانوں میں منتقل ہوئی، جہاں جامعہ میں ایک وقت ایسا بھی
آیا کہ قریب تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بند کردیا جائے مگر منتسبینِ
جامعہ کی ایک ٹیم آگے بڑھی اور اپنی خدمات پیش کرکے انہوں نے جامعہ کو نہ
صرف مشکل وقت سے باہر نکالا بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ ۱۹۳۵ء میں
جامعہ اوکھلا میں منتقل ہوئی جہاں محبےّن جامعہ نے زمینیں خرید خرید کر
جامعہ کے لئے وقف کیں۔ ۱۹۶۲ء میں جامعہ کو یونیورسٹی اور ۲۶ دسمبر ۱۹۸۸ کو
مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ جامعہ کے نام سے اسلامیہ کا لفظ نکالنے
کی بھی کوشش ہوئی مگر محبین جامعہ خاص کر مہاتما گاندھی نے اس کی سختی کے
ساتھ مخالفت کی۔ غرضیکہ اکابرین ملت نے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی سے
جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سینچا ہے جو آج الحمد ﷲ روشن چراغ کے مانند پورے ملک
کو روشن کررہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی
ایسی عظیم سرکاری یونیورسٹی ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کے زیور
سے آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اب ہندوستان کی مایۂ ناز مرکزی یونیورسٹی ہے جہاں نہ
صرف مسلمانوں کے مختلف مسلکوں سے وابستہ ہزاروں طلبہ پڑھتے ہیں بلکہ مختلف
مذاہب کے ماننے والے بھی اس سیکولر ادارہ میں زیر تعلیم ہیں۔ جامعہ کے قیام
کے دوران مختلف افکار ونظریات رکھنے والوں کے ساتھ میل جول کے ذریعہ دوسروں
کے ساتھ حسن سلوک، رواداری، خیر سگالی، انسان دوستی، تحمل اور برداشت کرنے
جیسی اہم صفات ہمارے اندر پیدا ہوئیں یا اُن میں تقویت حاصل ہوئی۔
جامعہ زندہ آباد
|