کھیلوں کاپانچواں موسم - شیلڈز کا موسم

سوال یہ ہے کہ مہمان خصوصی ، کھیلوں کی وزارت کے متعلقہ افسران کا شیلڈز کیساتھ تعلق کیا بنتا ہے ، انہیں لاکھوں کی تنخواہیں ، گاڑیوں کا پٹرول ، ہائوس رینٹ اس طرح کی سرگرمیاں منعقد کرانے کیلئے ہی ملتا ہے اور اس طرح کے کھیلوں کے مقابلے منعقد کرانا ان کی ذمہ داری ہے ، اپنی ڈیوٹی پر شیلڈز وصول کرنا کہاں کی تک ہے ،لیکن اسے خوشامد کی انتہا کہیے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو بھی شیلڈز دئیے جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو صحافی نشاندہی نہ کریں جیسے صحافی نہ ہوا ، علاقے کی صفائی کرنے والا ڈبلیو ایس ایس پی کا خاکروب ہوا جس کا بنیادی کام علاقے کی غلاظت کو ختم کرنا ہے اسی طرح صحافی کا کام اب کھیلوں میں کسی زمانے کے جمعہ دار کا ہوگیا ہے اب اسے شیلڈز اس لئے ملتا ہے کہ وہ آنکھیں بند ، منہ خاموش اور کان بھی بند رکھیں .۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات شیلڈز بھی مخصوص لوگوں سے بنوائے جاتے ہیں جس کیلئے رقم تو الگ جاری ہوتی ہیں لیکن ادا کوئی اور ہوتی ہیں پشاور میں منعقدہ کچھ عرصہ قبل ایک قومی سطح کے مقابلو ں میں شیلڈز کا ٹھیکہ ایک صاحب نے یہ کہہ کر لیا تھا کہ شیلڈز کوریا سے آئیں گے ، کوریا سے کیا آنے تھے شیلڈز تو لاہور سے آگئے لیکن رقم کوریا کے نام پر آنیوالے شیلڈز پر رقم نکل گئی -
آپ مجھے حاجی کہیں اور میں آپ کو صاحب کہوں گایہ ایک فارسی مقولہ کا ترجمہ ہے جو آج کل کے حالات میں ہر جگہ فٹ ہورہا ہے تاہم اس کی ضرورت اس وقت سب سے زیادہ کھیلوں کی وزارت کو ہی ہے یعنی ایک دوسرے کاخیال رکھنا ہے تو چلنا ہی ہے ورنہ لگے رہو منا بھائی ..تو مجھے حاجی نہیں کہتے تو میں تمھیں صاحب کیوں کہوں.اس مقولے کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہیں کہ ہر موسم کی طرح کھیلوں کے میدان میں اب شیلڈز کا موسم آرہا ہے کیونکہ کھیلوں کے میدان آبادہورہے ہیں جو کہ اچھی بات ہے کیونکہ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیاں کرنے کو ملیں گی تو انہیں منفی سرگرمیوں کی طرف جانے کا موقع نہیں ملے گا لیکن شیلڈز کے اس موسم کی قیمت عوام کو کتنی ادا کرنی پڑ رہیں اور کیوں کرنی پڑ رہی ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں.جس کا ذکر تو آگے آجائے گا لیکن ایک بات کہ تب.. دی.. والی سرکار کے کھلاڑی وزیراعظم کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ پاکستان میں موسم پانچ ہیں ، جن میں بہار ، خزاں ، سردی ، گرمی اور شیلڈز دینے اور لینے کا موسم..

دل کے پھپھولے سربازار پھوٹنے پر ہمارے بعض صحافی بیورو کریسی سے زیادہ ہم سے زیادہ ناراض ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ وزارت کھیل کے ترجمان ہیں اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ صاحب آرہے ہیں ، صاحب جارہے ہیں ہوجائے گا ، جیسی سرگرمیوں کو رپورٹ کریں تاکہ ان کی دکانداری جاری رہیں اور اگر کوئی کھیلوں کی وزارت میں ہونیوالی غلطیوں کی نشاندہی کریں تو صاحب لوگوں سے زیادہ یہ صاحبان خفاہوتے ہیں کہ سرٹیفائیڈ صحافی صرف وہ ہیںاور غلط سرگرمیوں کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں کہ اس سے کھیلوں کا فروغ متاثر ہورہا ہے جس طرح ایک دور میں زرداری اور نواز شریف کے خلاف بات کرنا جمہوریت کو خطر ہ ہوتا تھا اسی طرح اب سپورٹس کے شعبے میں غلط چیزوں کو رپورٹ کرنے سے کھیلوں کے فروغ کو نقصان ہوتا ہے ..

خیر باتیں کہیں اور نکل گئی لیکن اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ وزارت نوجوانوں کی ہیں اور اس شعبے کے نوجوان کھلاڑی اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کو ہائی لائٹ کیا جائے تاکہ انہیں کچھ سہولت میسر ہو ، ہاں کچھ بیورو کریٹ ، افسران اور صحافی نما کلرکوں کی دکاندار متاثر ہوتی ہیں اس لئے وہ اس پر ناراض ہوتے ہیں اور بدلے میں ہمیں گالیاں/ اور سخت باتیں سننی کو ملتی ہیں. لیکن چھوڑیں سچ کی قیمت برداشت کرنی پڑتی ہے کبھی زیرعتابی کی شکل میں اور کبھی کسی اور شکل میں..ہاں بات ہورہی تھی شیلڈز کے پانچویں موسم کی ، یہ ایسا موسم ہے جس کیلئے کچھ مہینے تو بالکل مخصوص ہیں کیونکہ فنڈز ملتے ہی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں اور یہ مہینے جولائی سے دسمبر تک زیادہ ہوتے ہیں تاہم شیلڈز کا موسم سارا سال رہتا ہے .

سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کو فنڈز اس صورت میں زیادہ ملتا ہے کہ وہ حاجی بگویم ،چھوڑیں شیلڈز میں صاحب لوگوں کو یاد رکھیں ، سوال یہ ہے کہ کسی بھی کھیلوں کے فیسٹیول کو منعقد کرنے کے بعد شیلڈز مہمان خصوصی کو دینے کا تک کیا بنتا ہے ، کیا کسی مہمان خصوصی نے کسی بھی کھیل کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کے بعد نمایاں کھلاڑیوں کیلئے اپنی تنخواہ سے رقم دی ، کسی کھلاڑی کی تعلیم کا خرچہ چھ ماہ کیلئے دینے کا اعلان کیا ، مہمان خصوصی کوئی بھی ہو ، آکر بیس منٹ کی تقریر کرتا ہے اور میزبان شیلڈز لینے اور دینے کا سلسلہ شروع کرتا ہے جو نمایاں کھلاڑی ہوتے ہیں جن کی پرفارمنس ہوتی ہیں وہ الو کے پٹھو کی طرح پیچھے ہوتے ہیں یا پھر صرف تالیاں بجانے کے کام آتے ہیں جبکہ غیر متعلقہ افراد کو ایوارڈ کا سلسلہ جاری رہتا ہے.

سوال یہ ہے کہ مہمان خصوصی ، کھیلوں کی وزارت کے متعلقہ افسران کا شیلڈز کیساتھ تعلق کیا بنتا ہے ، انہیں لاکھوں کی تنخواہیں ، گاڑیوں کا پٹرول ، ہائوس رینٹ اس طرح کی سرگرمیاں منعقد کرانے کیلئے ہی ملتا ہے اور اس طرح کے کھیلوں کے مقابلے منعقد کرانا ان کی ذمہ داری ہے ، اپنی ڈیوٹی پر شیلڈز وصول کرنا کہاں کی تک ہے ،لیکن اسے خوشامد کی انتہا کہیے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو بھی شیلڈز دئیے جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو صحافی نشاندہی نہ کریں جیسے صحافی نہ ہوا ، علاقے کی صفائی کرنے والا ڈبلیو ایس ایس پی کا خاکروب ہوا جس کا بنیادی کام علاقے کی غلاظت کو ختم کرنا ہے اسی طرح صحافی کا کام اب کھیلوں میں کسی زمانے کے جمعہ دار کا ہوگیا ہے اب اسے شیلڈز اس لئے ملتا ہے کہ وہ آنکھیں بند ، منہ خاموش اور کان بھی بند رکھیں .۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات شیلڈز بھی مخصوص لوگوں سے بنوائے جاتے ہیں جس کیلئے رقم تو الگ جاری ہوتی ہیں لیکن ادا کوئی اور ہوتی ہیں پشاور میں منعقدہ کچھ عرصہ قبل ایک قومی سطح کے مقابلو ں میں شیلڈز کا ٹھیکہ ایک صاحب نے یہ کہہ کر لیا تھا کہ شیلڈز کوریا سے آئیں گے ، کوریا سے کیا آنے تھے شیلڈز تو لاہور سے آگئے لیکن رقم کوریا کے نام پر آنیوالے شیلڈز پر رقم نکل گئی -

ویسے ہمیں شیلڈز سے اتنی چڑ نہیںیہ شیلڈز دینے چاہئیے لیکن صرف کھلاڑیوں کو ہی ، جن کی پوزیشن نمایاں ہو،اور انہوں نے کسی بھی مقابلے میں حصہ لیا ہو ،صرف میزبان کا مہمان کو شیلڈز ، مہمان کا میزبان کیلئے شیلڈز ، آرگنائزر کیلئے الگ شیلڈز ، کوریج کرنے والے صحافی کیلئے الگ شیلڈز، وزارت کے کلرکوں کیلئے الگ شیلڈز اور سب سے آخر میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کیلئے شیلڈز..جن کا حق ہے انہیں سب سے آخر ہی میں ملتا ہے ، وزارت کھیل کے وزیر نے ، بیورو کریٹ نے ، آفسر نے ، مہمان خصوصی نے ، آرگنائزر نے ، کلرک نے یا صحافی نے کونسا تیر مارا ہے ،بھائی ڈیوٹی کی ہے جس کی تنخواہیں سب کو مل رہی ہیں لیکن تنخواہ سرکار کے جیب سے مل رہی ہیں اور شیلڈز بھی سرکار کے خزانے سے بن رہے ہیں اس لئے کسی کو اعتراض نہیں.اس طرح کے خرچے تو کوئی بھی نہ کرے کیونکہ خرچہ جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے اور اس وزارت سے فنڈز لینے والوں کا حال تو یہ ہے کہ روٹی کھلانے کے بعد کھانے والے کو یہ کہہ کر یاد دلایا جاتا ہے کہ " فلاں وقت ہم نے تمھیں کھانا کھلایا تھا" یعنی اپنی جیب سے اگر کسی کوکلول ، لوبیا بھی کھلانا پڑ جائے تو سامنے والے کو یاد کروایا جاتا ہے کہ سامنے والاخاموش رہے ،اپنی رقم خرچ کرکے روٹی یاد کرانا بھی کمینگی کی انتہا ہے لیکن سرکار کی رقم کو بغیر ڈکار کے ہضم کرنا شائد ہماری قومی بے غیرتی کا تقاضا ہے .

سب کو خوش رکھنے کیلئے شیلڈز دینے کا نقصان و زارت کو ہی ہے یا پھر متعلقہ ایسوسی ایشنز کوجو مقابلے پر اخراجات کم سے کم اور شیلڈز پر سب سے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیںتاکہ آئندہ کسی بھی ٹورنامنٹ کیلئے زیادہ رقم مل سکے یا یہ نقصان کھلاڑی کو ہے جو جان مارتا ہے پوزیشن لیتا ہے اور اسے ایوارڈ ملتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں افسر، بیورو کریٹ ، مہمان خصوصی یا صحافی جن کا بنیادی کام ہی کھیلوں کے فروغ کیلئے کوششیں کرنا ہے انہیں شیلڈز اور ایوارڈ صرف اس کے عہدے کی وجہ سے ملتا ہے .یعنی جان مارنے والے کھلاڑی اور ڈیوٹی کرنے والے افرا د میں کوئی تمیز ہی نہیں.ویسے شیلڈز غیر متعلقہ افراد کو دینے کا جو سلسلہ جس نے بھی شروع کیا ، انتہائی ہی چاپلوس آدمی تھا جس نے یہ بدعت شروع کی اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہیگی

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418362 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More