نہ کھلاوں گا اور نہ کھلانے دوں گا

2014کے انتخاب سے قبل مودی جی نے نعرہ لگایا تھا ’ نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ بلکہ ’چوکیدار بن کر بیٹھ جاوں گا‘ پانچ سال بعد جب دوبارہ انتخاب آیا تو ملک بھر میں اس کے برعکس یہ نعرہ گونجنے لگاتھا کہ ’چوکیدار چور ہے‘ ۔ اس کے باوجود ائیر اسٹرائیک کے شور شرابے میں مودی جی انتخاب جیت گئے اور اب ایسا لگتا ہے ان کا غیر اعلان شدہ نعرہ ہے ’نہ کھلاوں گا اور نہ کھلانے دوں گا‘۔ ایسا نہ ہوتا تو ہیومن ویلفیرفاونڈیشن اور چیریٹی الائنس کے دفتر پر چھاپے نہیں پڑتے ۔ دہلی کے ان رفاہی اداروں کے علاوہ جموں کشمیر اور بنگلورو میں بھی عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں پر چھاپہ مار کر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بھوک و افلاس کی107 ممالک پر مشتمل عالمی فہرست( گلوبل ہنگر انڈیکس) میں ہندوستان فی الحال 94ویں نمبر پر ہے۔ ہمسایہ ممالک میں یہ سب سے نچلا مقام ہے کیونکہ پاکستان 88ویں ، سری لنکا 64ویں، نیپال 73ویں اور بنگلہ دیش 75ویںمقام پر ہے۔ اس گلوبل انڈیکس میں نیچے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی آبادی کو ضروری خوراک نہیں مل رہی، بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے، بچوں کا وزن کم ہے اور وہ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ حکومت اولین کی ذمہ داری ہے کہ ان سنگین مسائل کی جانب توجہ دے اور اس میں بہتری لانےکے لیے جو فلاحی ادارے کام کررہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرے لیکن یہاں تو چھاپہ مار کر الٹا ان کا حوصلہ پست کیا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ يونيسف بچوں کی فلاح وبہبود پر کام کرتاہے۔ اس کے مطابق جنوبی ایشیا،یعنی بھارت، پاکستان، افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان پرمشتمل ممالک میں تقریباً 600 ملین بچے ہيں، جن ميں سے تقریباً 240 ملین یعنی 40 فیصد بچے کورونا سےپہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس عالمی ایجنسی کی تازہ رپورٹ میں ماہِ جون کے اندر آگاہ کیاتھا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے اندرآئندہ 6 ماہ کے دوران مزیدتقریباً 120 ملین بچے غربت کی نچلی ترین خط سے بھی نیچے گر کر عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہيں۔اس 'ورسٹ کیس سینیریو‘یعنی بدترین امکانات کی صورتحال کے تناظر میں 20 فیصد اضافہ کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ ایسے میں فلاحی اداروں کی ضرورت اور اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر فوری طور موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو ایک پوری نسل کی امیدیں اور مستقبل تباہ ہو جائے گا۔افسوس کی بات یہ فی الحال حکومت کو انتخابات لڑنے اور اس میں کامیابی کے لیے ہندو مسلمانوں کو آپس میں لڑانے سے فرصت نہیں ہےلیکن اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ان اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے جو مفلوک الحال عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے زمینی سطح پر ٹھوس کام کررہے ہیں بے حد تشویشناک ہے۔ بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بہار کے رائے دہندگان کو متاثر کرکے انتخاب جیت جائے گی تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔

یونیسیفنےشہری آبادی میں پلنے والے بچوں کے حوالے سے ``Children in Urban World`` کے عنوان سے جاری کر دہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شہری علاقوں میں رہنے والے غریب بچوں کی حالت دیہی علاقوں کے بچوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ یونیسیف نےہندوستان کے بڑے شہروں میں نہایت غریب افراد پر مشتمل تقریباً پچاس ہزار جھگیوں پر مشتمل بستیوں کے متعلق سروے کے بعد بتایا تھا کہ ان علاقوں میں ہر تین میں سے ایک شخص یا توگندے نالے یا پھر ریلوے لائن کے پاس رہتا ہے اور ان غریب بستیوں میں رہنے والے بچوں کی حالت دگر گوں ہے ۔ ہندوستان کے اندر غریب بچوں کی حالتِ زار پر توجہ دلاتے ہوئے ممبئی کے مایہ ناز ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسزکے سربراہ ڈاکٹر پرسو رام کا کہنا تھا کہ ملک میں غربت کے سبب کم عمر بچوں کی اموات زیادہ ہوتی ہیں ۔ڈاکٹر پرسو رام کے مطابق ہندوستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی غربت سے دلت اور مسلمان بچےسب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ افراد اور ادارے قابل مبارکباد ہیں جو ان غریبوں کی خبر گیری کرکے انہیں بنیادی سہولیات مثلاً تعلیم وصحت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ حکومت کے ذریعہ ان پر چھاپہ مارکر انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوشش قابلِ مذمت ہے۔

اپنےذاتی استعمال کے لیے 8400کروڈ کا جہاز خرید کر خود کو وشوگرو (عالمی رہنما) سمجھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’پاکستان کو غربت اور پسماندگی سے نبرد آزماہونے کا طریقہ ہندوستان سے سیکھنا چاہئے ‘‘۔ سپنوں کے سوداگر وزیر اعظم خود بھی خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ورنہ انہیں پتہ ہوتا کہ گزشتہ سال عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے زیادہ غربت ہندوستان میں ہے ۔ویکی پیڈیا کے مطابق 32.67 فیصدہندوستانی شہری بین الاقوامی خطِ غربت، یومیہ1.25 امریکی ڈالر فی کس آمدنی پر، یا اس سے نیچے، زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ پاکستان میں اس کی شرح 21.04 فیصد ہے۔اوکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ انِشیے ٹیو(Oxford Poverty and Human Development Initiative)نے اپنی ایک رپورٹ میں غربت کے حوالے سے ہندوستان کو پسماندہ ممالک میں شمار کیا ہے ۔ غربت کی پیمائش کے لئے مرتب کی گئی اس رپورٹ میں صحت ، تعلیم ، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی جیسے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا تھا ۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ہندوستان میں غربت کی شدت افریقی ممالک جیسی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامیونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام(UNDP ) کے وضع کردہ پیمانے کے مطابق ہندوستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی گزارتی ہے ۔اس ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے یوں توہندوستان مجموعی طور پر غربت میں کمی کے اپنے ہدف کو پورا کرنے میں مصروف ہے لیکن دیہی علاقوں میں غربت و افلاس کے کئی مظاہرہیں خاص طورزراعت کے شعبے میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں اور دیہی علاقوں میں روزگار و معاشی ترقی کے مواقع میں حسبِ توقع بہتری نہیں ہورہی ہے۔اس معاملے خود مودی حکومت کی جاری کردہ ریزرو بنک کی ہینڈ بک کے اعدادو شمار بھی ان عالمی اداروں کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بہار کا ہر نوجوان اس کی گواہی دے رہا ہے۔ ایسے میں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعہ وادی کشمیر ، دہلی اور بنگلورو میں فلاح بہبود کا کام کرنے والے ہیومن ویلفیر فاونڈیشن اور چیریٹی الائنس جیسے موقر اداروں پر چھاپے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ محض این آئی اے کی چھاپے سے کوئی ادارہ مشکوک نہیں ہوجاتا لیکن تفتیش و تحقیق کے لیے ملکی قانون میں دیگر مہذب طریقہ موجود ہے۔ان اداروں کے ذمہ داران نے اس بابت تعاون کی پیشکش کی ہے اس لیے ان کے پاس چھپانے جیسا کچھ نہیں ہے اور اکثر اس طرح کے الزامات عدالت میں مسترد ہو جاتے ہیں ۔

فلاحی اداروں کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی حکومت نے اسی طرح کا معاندانہ رویہ اختیار کررکھا ہے ۔ بھیما کورے گاوں کی یلغار پریشد کا بہانہ بناکر ملک کے نامور دانشوروں کو پابند سلاسل کیا جاچکا ہے ۔ دہلی فساد کے بہانے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء و نوجوانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس طرح کی حرکات اس وقت بامِ عروج پر پہنچ گئیں جب 8سالوں تک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کئی اہم معاملوں کو اٹھانے والے معروف عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو ملک میں اپناکام بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔ایمنسٹی نے یہ قدم ای ڈی کی جانب سے اس کے اکاؤنٹ کو فریز کیے جانے کے بعد اٹھایا اورتقریباً150ملازمین کی چھٹی کردی۔ ایمنسٹی نے اپنے خلاف لگائے جانے والے منی لانڈرنگ جیسے الزامات کو مسترد کرکے اسے سرکاری انتقامی کارروائی قرار دیا ۔ ایسا لگتا ہے حکومتوقت اب اپنے جبر کا دائرہ وسیع کرکے اس میں فلاحی اداروں کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے اس لیے مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوے اسے بہار الیکشن میں ہندو مسلم کا کھیل کھیلنے اور بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ موڑنے کی مذموم حرکت قرار دیا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224298 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.