ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پر بزرگ کی فریاد

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کرام کے بعد دنیا میں انسانی رشتوں میں سب سے افضل درجہ والدین کا ہے، اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے بعد اولاد کو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی خدمت گزاری، ان سے نرم اور شفیق رویہ روا رکھنا اولاد پر لازم قرار دیا گیا ہے، ماں کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ وہ اﷲ رب العزت کے بعد انسان کی تخلیق کا ذریعہ ہے اور گرمی ہو یا سردی، بیمار ہو یا تندرست اولاد کی پرورش کیلئے تکلیف اور مشقت زیادہ ماں ہی برداشت کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر عظیم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘ مگر باپ کا رتبہ بھی کسی مقام پر کم نہیں رکھا گیا، ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک ان کا بڑھاپے میں سہارا بننا انہیں عزت و تکریم دینا، ان کے ساتھ نرم رویہ اپنانا اور ان کے سخت لہجہ کو برداشت کرنے کا بھی اولاد کیلئے حکم ہے۔ اور یہ کہ والدین اولاد سے سخت رویہ رکھیں تو بھی اولاد پر والدین کی فرمانبرداری لازم قرار دی گئی ہے۔ اولاد پر لازم ہے کہ وہ اﷲ تعالی اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کی طرح والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں، اور ان سے ہمیشہ محبت اور خلوص سے پیش آئیں۔ والدین کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دیں، یعنی والدین کی رائے کو اپنی رائے سے بہتر و اعلی سمجھ کر اسے تسلیم کریں، بالخصوص جب والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں تو ان کی ضروریات، جذبات، احساسات کا خیال رکھنا بھی اولاد کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔

زمانے کی گردش اور ترقی نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، ایشیائی و مغربی ممالک میں والدین کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے،یورپ میں تو اولاد اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بننا ضروری نہیں سمجھتی، اور یورپ میں جونہی خواتین و افراد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ان کی اولاد انہیں سرکاری ’’اولڈ ایج ہومز‘‘ میں چھوڑ آتی ہے، یورپی نوجوان اولڈ ایج ہوم میں مقیم اپنے والدین کو ملنا بھی بوجھ سمجھتے ہیں، اس طرح یورپ میں بزرگوں کی اکثریت عمر کا آخری حصہ اپنی اولاد سے دور ان (بزرگوں) کے لئے بنائے جانے والے سرکاری سنٹرز میں گزارتے ہیں۔ یورپی ممالک کی نسبت ایشیائی ممالک بالخصوص اسلامی ممالک میں بزرگوں کی قدر و قیمت قدرے ماضی کی طرح قائم ہے ان ممالک میں بزرگوں کو اپنے سے دور اولڈ ایج ہومز میں رکھنے کی شرح نسبتا کم ہے۔ تا ہم ان ممالک میں اب بھی ایسے سنگدل اور سفاک لوگ موجود ہیں جو جوانی میں پیر رکھتے ہی اپنے بوڑھے والدین جنہوں نے انہیں طرح طرح کی مشقتیں اور اذیتیں جھیل کر پالا ہوتا ہے کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ آتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ہر امیر اور غریب کے گھر میں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح کی بیماری میں مبتلاء ہے اور دل خراش و المناک بات ہے ماہ رواں میں پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں 25 سے 264 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سرمایہ دار طبقہ کو تو ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑا لیکن اس سے دو وقت کی روٹی سے تنگ مزدور اور محنت کش طبقہ ادویات جن کی پہنچ سے پہلے ہی دور تھیں کی کمر ٹوٹ کررہ گئی غریب اور متوسط طبقہ علاج معالجہ کے لئے سرکاری ہسپتالوں کارخ کرتا ہے مگر سندھ بلوچستان پنجاب کے پی کے کے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور طبی سہولیات کا پہلے ہی فقدان ہے اس طرح غریب طبقہ کی اکثریت علاج معالجہ نہ ہو پانے کے باعث گھروں میں ہی سسک سسک کردم توڈ دیتی ہے اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر آج کل ایک دل دہلا دینے والی پوسٹ گردش کر رہی ہے، جو ایک بزرگ کی ہے، جس کی تحریر کچھ یوں ہے ’’بیٹے سے پیسے مانگنے سے شرم آتی ہے، وزیر اعظم صاحب دوائیاں سستی کر دیں‘‘۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے ہر نرم دل اور ذی شعور شخص نے اس پوسٹ کو اپنی فیس بک پر لگا رکھا ہے۔ دیگر سوشل میڈیا پر بھی وائرل نظر آنے والی بزرگ کی یہ تحریر دراصل ہر گھر کے اندر چھپے ہوئے حقائق ہیں، موجودہ حالات میں غریب سے غریب شخص بھی اپنی عزت نفس مجروح ہونے کے ڈر سے دل تڑپا دینے والا کڑوا سچ بولنے سے قاصر ہے، یہ بھی سچ ہے کہ نوجوان نسل کی اکثریت اپنے عمر رسیدہ والدین کی وہ خدمت نہیں کر پا رہی جس کا اولاد کیلئے اﷲ پاک نے حکم دے رکھا ہے۔

پاکستان میں بھی ہزاروں بزرگ، خواتین و افراد اولڈ ایج ہومز میں زندگی گزار رہے ہیں، جن میں سے اکثریت کی اولادیں حیات ہیں اور کئی ایسے بزرگ خواتین و افراد بھی موجود ہیں جن کی اولادیں معاشرے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں، لیکن انہوں نے اپنے والدین کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہوئے انہیں سرکاری اولڈ ایج ہومز میں منتقل کر دیا ہے ، جبکہ کئی ایسی ناخلف اولادیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کروا کر معاشرے میں یہ تاثر دے رکھا ہے کہ ان کے والدین دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ عید یا خوشی کے کسی تہوار پر ٹی وی چینلز ان اولڈ ایج ہومز پر پروگرام نشر کرتے ہیں۔یہ پروگرام دیکھ کر ان اولڈ ایج ہومز میں رہنے والے بزرگوں کے تاثرات و انکشافات دل دہلا کر رکھ دیتے ہیں، مگر اس کے باوجود نوجوان نسل پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوتا جو انہیں اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ کر جاتے ہیں، کیونکہ ان کی انسانی حس مر چکی ہوتی ہے اور وہ بظاہر تو انسان حقیقت میں حیوان ہوچکے ہیں یہ سب اخلاقی پستی اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ ہے اس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں اور مدارس میں اخلاقیات کی باقائدہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے والدین سے چھٹکارا پانے کیلئے انہیں اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ آتے ہیں۔ یہی نہیں چھوٹے بڑے شہروں کی عام سڑکوں، گلی محلوں کے فٹ پاتھوں اور دکانوں کے باہر رات کے وقت نظر دوڑائیں تو وہاں بھی اکثر بزرگ خواتین و افراد بے یارو مددگار پڑے ہوتے ہیں جو کسی کے بھائی، باپ، ماں، بہن یا بیٹے ہوتے ہیں۔ مگر معاشرے کا کوئی فرد ان کو اپنانے کیلئے تیار نہیں ہوتا، اور ایسے افراد کی اکثریت کی موت اسی حالت میں سڑکوں، چوراہوں پر واقع ہو جاتی ہے تو انہیں لاوارث قرار دے کر دفن کر دیا جاتا ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی بزرگ کی اس پوسٹ کی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’بیٹے سے پیسے مانگتے شرم آتی ہے، وزیر اعظم صاحب دوائیاں سستی کر دو‘‘۔ یہ پوسٹ معاشرے کیلئے ایک سبق ہے جسے پڑھ کر ہمیں عبرت اور نصیحت حاصل کرنا چاہئے اور اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی کثر نہیں چھوڑنی چاہئے، تا کہ انہیں بڑھاپے میں بڑھاپے کا احساس نہ ہو، لیکن ایسا کب ہو گا؟ ایسا تب ہو گا جب ہم سب مل کر اپنے اور معاشرہ میں بسنے والے بزرگوں کا احترام کرنا سیکھ لیں گے اور انہیں ان کا حق دیں گے تو نہ کسی "اولڈ ایج ہوم"کی ضرورت رہے گی اورنہ کسی سڑک، چوراہے، یا فٹ پاتھ پر کوئی بزرگ خواتین و مرد بے یارو مددگار پڑا ملے گا اور نہ ہی کوئی اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ کر آئے گا، اور پھر نہ کسی بزرگ کو ایسی تحریر لکھنے کی زحمت ہو گی، اور نہ ہی کسی بزرگ کی لاش چوک چوراہے سے ملے گی؟
 

Akram Aamir
About the Author: Akram Aamir Read More Articles by Akram Aamir: 50 Articles with 30572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.