کچھ اھل ستم، کچھ اھل حشم ھمیشہ میخانے کا ماحول خراب
کرنے کی جستجو میں مگن رھتے ھیں، مگر اس میخانے کا ساقی کیا ھی دل جگرے کا
مالک ھے جو اپنے لب لب جھلکتے جاموں کو کھلی آنکھوں زمین پر ڈھلکتے اور
کرچی کرچی ھوتے تو دیکھتا ھے مگر اففففف یا آہ تک نہیں کرتا۔
مجھے اس میخانے کے ساقی پر رشک آتا ھے جس کے سامنے اسکے میخانے کے قیمتی
جام جب ڈھلتی شام کے گہرے سائے کی مانند زمین پر دھڑام سے گرتے ھیں تو تازہ
، گرم اور مقدس و پاکیزہ لہو فوارے کی مانند ھواؤں اور فضاؤں میں اپنی
خوشبو بکھیرتے ھوئے چہار سو پھیل کر اپنا پیغام سناتے ھوئے جمتا نہیں بلکہ
اپنی ھر ھر بوند سے ھزاروں عشاق *علم* کے سینوں میں ھلچل مچا دیتا ھے، اور
یوں ایک ٹوٹتا جام ھزاروں علم کی شمعیں جلاتے ھوئے میخانے کی روشنی اور
ساقی کے ذوق میں اضافے کا سبب بنتا ھے۔
اس رزمگاہ عشق کا دستور بھی عجب ھے ، کبھی جام توڑ دئیے جاتے ھیں تو کبھی
ساقی کسی کم ظرف کے گہرے وار سے گھائل ھو جاتا ھے۔
آفاقی نظام بھی عجیب ھے کہ پینے اور پلانے والے یکے بعد دیگرے خود کو بظاھر
فنا مگر حقیقت میں ابدی بقا کا جھومر اپنی جبینوں پہ سجائے جنت کے
بالاخانوں سے اپنے شاد و آباد میخانے اور اس کی رونقیں دیکھ کر ملائک و
غلمان خلد کے بیچ فخریہ گفتگو کرتے ھیں اور مارے مسرت و دیدنی کے اپنے شانے
چت کر کے چلتے ھیں۔
قارئین کرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
حصول علم ایک عجیب و پرسرور اور پاکیزہ نشہ ھے، مدارس اسلامیہ کی مثال ایک
میخانے کی سی ھے ، جہاں اس سرور و وجدان کے اسرار و رموز علمائے حقہ جو کہ
بمنزلہ ساقی کے ھیں اپنی زندگیاں صرف کرتے ھوئے نونہالان ملت کے دل و دماغ
میں منتقل کرتے ھیں، یہ عجب سلسلہ ھے جو صدیوں سے بدستور چلا آرھا ھے اور
تا صبح قیامت چلتا رھے گا۔
مگر اس مبارک سلسلے کو روکنے کیلئے ھر دور میں *علم دشمن* طاقتوں نے وہ
تمام حربے استعمال کئیے جو انکے زعم میں شاید ان میخانوں کو ختم یا کمزور
کرنے کیلئے کارگر ثابت ھو سکیں۔
قدرت کو جو کام منظور نا ھو ، لاکھ حیلے، حربے، سازشیں بھی اس کام کو نہیں
روک سکتیں۔
یہ تعلیم و تعلم کا مبارک سلسلہ اور استاد و طالب علم کا بہت ھی نایاب،
مقدس اور مضبوط رشتہ صدیوں سے چلا آرھا ھے، یہ ایسا بابرکت پودہ تھا جس کی
جڑیں تو صفہ کے چبوترے سے چلی تھیں مگر آج اسکی شاخیں پورے کرہ ارض کے طول
و عرض میں شرقا، غربا، شمالا اور جنوبا پھلی، پھیلی اور پھولی ھوئی ھیں،
خدا کرے کہ یہ درخت اپنا سایہ ھمیشہ برقرار رکھے۔
حال ھی میں عالم اسلام کے نامور علمی مینار اور میخانہ علم کے ساقی مولانا
عادل خان بن رئیس المحدثین مولانا سلیم اللہ خان عليه الرحمة کو جس بے دردی
سے کراچی میں شہید کیا گیا یقینا یہ ایک گہرا وار تھا اس میخانہ علم کے
ساقی پر، جبکہ دوسری طرف پشاور میں معصوم اور نہتے طلبہ کو انکی مقدس
کتابوں سمیت لہو میں نہلا دیا گیا۔
علم دشمنی تو صدیوں سے چلی آرھی ھے مگر آج ھمیں ایک اور ناسور کا سامنا ھے
جس نے مسلمانوں کے جذبات کا کھلواڑ بنانا اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا رکھا ھے
وہ یہ کہ مذھب بیزار طاقتیں اسلام کے مقدسات کی توھین کر رھی ھیں وہ بھی
سرکار کی سرپرستی میں، اب کے بار تو سرکار خود ھیں میدان میں کود پڑی اور
*میرے محبوب حضور خاتم النبین رحمت اللعالمین* کی شان گستاخیوں کا ایک
بازار گرم کر رکھا ھے جس پر پوری امت سراپا احتجاج ھے۔
👇👇👇ذیل میں دی گئی تصاویر بھی اسی عالمی ردعمل کا ایک مظہر ھے جہاں
کراچی کے دینی مدارس کے معصوم ، ننھے پھول اپنے ہاتھوں میں *قرآن* اور
*کتاب* لئیے *عالمی گماشتوں* کو پیغام دے رھے ھیں کہ۔۔۔۔۔
یہ ہاتھوں میں تھامی کتاب تمھارے لئیے ھمارا پیغام ھے، تم گستاخی میں اپنی
زور آزمائی کرو ، ھم اس کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کریں گے اور صاحب الکتاب
کی عزت و ناموس اور حرمت کی خاطر دنیا کے ھر میدان میں تمھارا مقابلہ کریں
گے۔
ساتھ ھی معصوم کلائیوں میں تھاما کلام اللہ اور کتبے ان علم دشمن طاقتوں کے
نام بھی کھلم کھلا پیغام ھے جو یہ سمجھتے ھیں کہ کہ ساقی کے گزر جانے سے
میخانہ ویران ھو جائیگا یا جام کے ٹوٹ گرنے سے میخانوں کی رونق ماند پڑ
جائیگی ۔۔
بہرحال ان تمام مدارس اور علمائے کرام کا شکریہ جنہوں نے اس خوبصورت انداز
سے علم دشمن طاقتوں کو پیغام دیا کہ ھم نا جھکیں گے ، نا بکیں گے اور نا ھی
تمھارا خوف ھمیں علم کی شمع اٹھانے سے روک سکتا ھے۔
وہ تمام علمائے کرام اور طلبہ کرام مبارکباد کے مستحق ھیں جنہوں نے یہ
خوبصورت پروگرام آرگنائز کیا اور پوری قوم کو ایک خوبصورت اور جراتمندانہ
پیغام دیا۔
فجزاهم الله جميعا
نيلمي
|