فرانس کے کتے

گزشتہ برس فرانس کے ایک شمالی شہر فیکوریس میں کتوں کے بھونکنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور مئیر نے نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ اگر کسی کتے کے بھونکنے سے لوگ پریشان ہوئے تو اس کتے والوں کو 68 یوروجرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانے کے بعد بھی کتا بھونکنے سے باز نہ آیا تو کتے کو گرفتار کرکے سرکاری تحویل میں بند کر دیا جائے گا۔ اس حکم کے ردعمل میں شہریوں نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ بھونکنا تو کتے کی فطرت ہے ، نہ تو اس کا منہ باندھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے بھونکنے کی کوئی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔

یہ مقدمہ عدالت میں چلا توبہت سے عجیب مناظر دیکھنے کو ملے، فریقین اور ان کے وکلاء نے بحث کرتے ہوئے ہر مختلف لہجے میں بھونک بھونک کر دکھایا کہ یوں بھونکنے والا کتا کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے اور اس طرح بھونکنے والے کتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ جج نے بھی مختلف طرح کے بھونکنے کی آواز یں نکال کر پوچھا کہ فلاں فلاں انداز میں بھونکنے والا کتا کس نسل کا ہوتا ہے اور وہ کتنا زیادہ بھونک سکتا ہے ۔ اس بھونکُو عدالت میں کوئی ویڈیو بنانے والا ہوتا تو دنیا ان مناظر سے لطف اندوز ہو سکتی تھی ، نہ صرف انسان بلکہ کتے بھی اس ویڈیو کو دیکھ کراگر محظوظ نہ بھی ہوتے تو بہرحال حیران ضرور ہوتے کہ آخر اشرف المخلوقات پر ایسی کون سی آفت آن پڑی کہ ہماری زبان بولنے پر مجبور ہو گئے۔

اس مقدمے کا فیصلہ کچھ بھی ہوا ہو البتہ فرانس کے کتے اس عدالتی کاروائی کے بعد قدرے تمیز دار ہو گئے ہوں گے اور بھونکنے سے پہلے یقینا یہ سوچ کر چپ سادھ لیتے ہوں گے کہ فرانس میں رہنے والے انسان تو ہم سے بھی کہیں اچھا اور زیادہ بھونک سکتے ہیں۔ فرانس کے کتوں کا یہ اندازہ اور گمان آج بڑی حد تک درست ثابت ہو رہا ہے جب اہل فرانس کے بھونکنے پر دنیا سراپا احتجاج ہے۔خاص طور پر مسلم دنیا کے بیشتر ممالک فرانس والوں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں احتجاجی جلوس اور جلسوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ چند ممالک نے فرانس سے تجارتی اور سفارتی تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ،تاریخ میں پہلی بار حکومت پاکستان نے بھی توہین رسالتؐ پر دیگر اسلامی ممالک سے بڑھ کر مزاحمت کی، لیکن ان تمام اقدامات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نظر نہیں آ رہا ،یعنی فرانس والے کسی کے ڈرانے دھمکانے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ۔بعض ملکوں کو امید ہے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی جانب سے انصاف مل جائے گا۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورم یہود و نصاریٰ کے زیرقبضہ ادارے ہیں ، جو لوگ خود توہین رسالت کے مجرم ہیں وہ اپنے ہی اسٹیج سے اپنے خلاف کوئی آواز کیونکر بلند ہونے دیں گے۔
بقول شاعر ؂
میرؔ کیاسادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

مسلم حکمرانوں اور عوام کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ سگان اغیارکے بھونکنے کو اسی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا تو کسی وقت وہ کاٹنے کو آ جائیں گے ۔ یہ باتوں کے بھوت نہیں اور نہ ہی لاتوں کے بھوت ہیں بلکہ لات ماری جائے تو اسے پکڑنے کو دوڑتے ہیں ۔ ان کاواحد علاج وہ ڈنڈا ہے جو مسلمان قوم کو ڈیڑھ ہزار برس قبل تھمادیا گیا تھا، اور جسے آج کی مسلم امت اپنی موج مستی میں کھو بیٹھی ہے۔ اسی محرومی کو بھانپ کر دنیا بھر کے کتوں کو جرأت ہوئی کہ وہ مقدسات ِ اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کریں اور امت مرحومہ کے آقا اور سردار صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کے خلاف زبان درازی کرکے نہ صرف حیوان کہلائیں بلکہ بل ھم اضل کے مصداق بھی ٹھہریں۔

دنیا بھر کے کتے مل کر بھی چاند کی جانب بھونکتے رہیں تو ان کی یہ جسارت چاند کی چمک کو مدھم نہیں کر سکتی۔آفتاب کی طرف تھوکنے والا اپنے چہرے کو داغدار تو کر سکتا ہے لیکن آفتاب کے عروج پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ریاض الجنۃ کے مکینوں تک مومن کا درود و سلام ہی پہنچ سکتا ہے کسی حاسد کا حسد اور کافر کا بغض اس مقام کو نہیں پا سکتا۔ جس ہستی کا ذکر خود خالق کائنات نے بلند فرما دیا ہو اس کی رفعتوں میں کوئی چور نقب نہیں لگا سکتا۔گستاخانہ خاکے اور توہین کے مذموم واقعات دراصل امت کی آزمائش ہے، یہ امتحان دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو آئینہ دکھا رہا ہے کہ وہ غلامی رسول ؐکے جذبے میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ہم اس آئینے میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک طرف ہم جشن آمد رسولؐ میں مصروف ہیں اور دوسری طرف شاتم رسول ہماری حمیت و غیرت کو للکار رہا ہے۔
بقول اقبال ؂
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا

ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کفار کی یہ جسارت مسلمان کو اپنا مقصدِ حیات یاد دلائے ، وہ اس فکر کی تجدید کرے کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد محض اپنی روزی روٹی کی تگ و دو نہیں۔ دن بھر رزق کے حصول میں پھرنا ، جو مل جائے کھا لینا اور نہ ملے تو صبر کرنا، یہ کام تو فرانس کے کتے بھی کرتے ہیں۔ہمارا امتیاز یہ ہے کہ ہمیں خالصتاً اﷲ کی عبادت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ اگر ہم اپنا یہ فرض پورا کرلیں تو اﷲ تعالیٰ کفار کے دلوں میں ہمارا رعب ڈال دیں گے اور انہیں توہینِ رسالت کی جرأت ہرگز نہیں ہو گی۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 22314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.