|
|
فاطمہ اپنی بیٹی کی وجہ سے بہت پریشان رہتی ہیں ، وہ
چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی علیزے لوگوں سے گھلنے ملنے والی ہو، باتیں کرتی ہو
اور کلاس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لتی ہو ۔ لیکن ان کی خواہشات کے
برعکس ان کی بیٹی بالکل ہی اُلٹ ہے ۔ علیزے نا تو کسی سے کلاس میں بات کرتی
ہے، نا ہی وہ دوست بناتی ہے ۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ وہ علیزے کو بہت سمجھاتی
ہیں ، لیکن وہ پھر بھی دوست بنانے میں ناکام رہتی ہے ، اس کی وجہ سے انہیں
سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر علیزے کے ساتھ ایسا کیا مسئلہ ہے جو وہ اپنی ہم
عمر بچیوں کی طرح نہیں ہے۔ |
|
ان سوالات کے جوابات ماہر نفسیات اور اسٹریس مینجمنٹ کی
ایکسپرٹ ڈاکٹر رچنا کے پاس موجود ہیں۔ ڈاکٹر رچنا کا ماننا ہے کہ جب بچے
سوشل نہیں ہوتے، لوگوں سے گھلتے ملتے نہیں ہیں ، یا دوست نہیں بناتے تو ان
کی مائیں پریشان ہو جاتی ہیں ، یہ ایک عام سی بات ہے ۔ ظاہر ہے انہیں اس
بات کی پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کہ ان کا بچہ عام بچوں کی طرح کیوں نہیں ہے۔ |
|
بچے ایک دوسرے سے مختلف
ہوتے ہیں: |
ڈاکٹر رچنا کا کہنا ہے کہ والدین کو سب سے پہلے یہ بات
ذہن میں بٹھا لینی چاہئے کہ جیسے عام لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں،
ویسے ہی بچے بھی ایک دوسرے سے مختلف عادات و مزاج رکھتے ہیں۔ کچھ بچے متحرک
زیادہ ہوتے ہیں ، جبکہ کچھ بچے چُپ مزاج ہوتے ہیں۔ کچھ بچے سب سے باتیں
کرتے ہیں، دوستیاں کرتے ہیں ، جبکہ اس کے برعکس کچھ بچے اپنی دنیا میں ہی
مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ |
|
اردگرد کے حالات کو دیکھیں: |
کچھ بچے ایسے حادثات یا واقعات سے گزر چکے ہوتے ہیں ،یا انہوں نے ایسی
چیزیں زندگی میں دیکھ لی ہوتی ہیں جو کہ ان کے مزاج پر اپنا اثر چھوڑ دیتی
ہیں ۔ وہ جہاں رہتے ہیں، ان کے گھر، اسکول اور محلے میں جو حالات و اقعات
رونما ہوتے ہیں، وہ ان پر اپنا اثر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ یہ دیکھیں
کہ بچے کے اردگرد یا گھر میں ایسے حالات و واقعات تو رونما نہیں ہو رہے، جن
کی وجہ سے وہ پریشان ہوں اور بول بھی نہ پا رہے ہوں ۔ |
|
|
|
بچے کا تمسخر یا مذاق
اڑانا: |
اگر چھوٹی کلاس میں یا اسکول میں بچوں کا مذاق اڑایا
جائے ، دوسرے طلبہ کی جانب سے اس بچے کو تنگ کیا جائے تب بھی بچے خاموش
مزاج ہوجاتے ہیں اور کلاس میں ان کی دوستی کسی سے نہیں ہو پاتی ۔ لہٰذا اس
بارے میں بھی پتا کرنے کی کوشش کریں کہ اسکول کے بچے یا کلاس فیلوز کہیں
بچے کو تنگ تو نہیں کرتے۔ |
|
بچوں پر دوستی کیلئے
دباؤ نہ ڈالیں: |
بچوں پر دوستیاں کرنے یا دوست بنانے کیلئے ہرگز دباؤ نہ
ڈالیں ۔ انہیں ان کے سکون کا دائرہ یا comfort zone سے باہر زبردستی نہ
نکالیں ۔ انہیں پہلے لوگوں سے ملنے جلنے دیں اور انہیں خود ہی فیصلہ کرنے
دیں کہ کسے دوست بنانا ہے اور کیسے بنانا ہے ۔ والدین ان کے ساتھ زبردستی
کریں گے تو وہ مزید ضدی ہو جائیں گے، لہذا اس معاملے میں ان سے زبردستی نہ
کریں ۔ |
|
دوست یا خاندان کے لوگوں
کو بچوں کے ساتھ گھر پر بلائیں: |
آپ اپنے قریبی دوست کی فیملی یا خاندان کے لوگوں
کو بچوں سمیت گھر پر بلائیں ۔ بچے کی سالگرہ پر قریبی دوست و احباب کے بچوں
کو مدعو کریں، جب بچے گھر میں آتے جاتے رہیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا بچہ
بھی ان کا عادی ہونے لگے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کی دوستی ہونے
لگے گی۔ پھر آہستہ آہستہ وہ گھر سے باہر اور اسکول میں بھی دوست بنانے لگے
گا۔ |
|
|
|
بچے آپ سے سیکھتے ہیں: |
بچے اپنے والدین کو دیکھتے ہیں اور ان سے سیکھتے
ہیں ۔ اس لئے وہ اگر اپنے دوستوں سے نہیں ملتے جلتے یا انہوں نے دوستیاں
چھوڑ دی ہیں تو یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ بچے اس لئے اپنے بھی دوست نہیں بنا
رہے۔ کوشش کریں کہ اپنے دوستوں سے کال پر حال احوال پوچھا کریں، ان سے ملنے
جلنے کا پلان کریں، انہیں گھر پر مدعو کریں۔ جب بچے آپ کو سوشل ہوتا ہوا
اور دوستوں کے ساتھ دیکھیں گے تو آپ سے سیکھتے ہوئے خود بھی دوست بنانے کی
طرف متوجہ ہوں گے۔ |
|
اگر ان تمام باتوں پر عمل کرنے کے باجود بھی آپ کا بچہ
دوست بنانے میں ناکام ہو رہا ہو تو پھر اسے ایک بار ماہر نفسیات کے پاس
ضرور لے کر جائیں، تاکہ اس کی ذہنی الجھن و پریشانی دور کی جاسکے۔ |