کردار کے غازیوں کا شیوہ ہی شہادت ہے

مشہور قصہ ہے کہ کسی گاؤں میں دو دوستوں نے پارٹنر شپ میں ایک بھینس خریدی ، ایک دوست چالاک تھا اور دوسرا سادہ لوح تھا ، چالاک دوست نے بھینس کی تقسیم یوں کی کہ اگلا حصہ آپ کا اور پچھلا حصہ چونکہ گندا ہوتا ہے ، وہاں گوبر ہوتا ہے لہذا وہ حصہ میرا ، سادہ لوح دوست نے بھی فوری طور پر ہاں میں ہاں ملا دی اور پھر سلسلہ یوں چلا کہ چالاک دوست دودھ بھی نکال کر بیچتا تھا اور گوبر بھی جبکہ سادہ دوست اگلے حصے کو گھاس کھلا کھلا کر ہی وقت گزاری کرتا رہا ، اسی چالاک اور سادہ لوح دوست والی تقسیم آج کل دینی کارکنان میں بھی عام ہے ، کچھ دوستوں نے دین کے آسان کام اپنے ذمے لے لئے ہیں ، اس میں چندہ بھی ملتا ہے اور مراعات بھی جبکہ سادہ لوح دینی کارکنان نے اپنے ذمے دین کے مشکل شعبہ جات لے لئے ہیں ، وہ ہر دینی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پھر گرفتار بھی ہوتے ہیں ، مشکلات بھی جھیلتے ہیں اور آخر میں شہادت ان کا مقدر بن جاتی ہے ، اللہ کے ہاں اُن کا کیا مقام ہے یہ الگ بات ہے لیکن دنیاوی اعتبار سے وہ خسارے میں ہیں ، بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تنظیم دنیاوی ہو یا دینی شہداء کا ذکر ہرجگہ سینہ تان کر ہی کیا جاتا ہے ، ایسے ہی ایک شہید علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ ہیں ، انہیں 10 اکتوبر کو کراچی میں مشہور اور مصروف شاہراہ پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ، مختلف زاویوں سے ان کے قتل کی واردات کی 4 ویڈیوز میں دیکھ چکا ہوں ، یقیناً قاتلوں کی دستیاب ویڈیوز اس سے کہیں زیادہ ہوں گی جو کہ ریاست اور حکومت نے حاصل کر لی ہوں گی ، ڈاکٹر علامہ عادل خانؒ کا پیچھا کہاں سے شروع ہوا اور واردات کیسے مکمل ہوئی ساری تفصیل کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لی ، لیکن اس کے باوجود حکومت قاتلوں کو اتنا وقت گزر جانے کے باوجود گرفتار نہیں کر سکی، جس سے سندھ حکومت کی عدم دلچسپی اور غیرسنجیدگی واضح ہے ، اور ابھی حالیہ واقع مفتی عبداللہ صاحب والا بھی ٹارگٹ کلنگ کا پیش آگیا جس میں حملہ آور واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ مجھے ان کو مارنے کا 4 لاکھ روپے وغیرہ ملیں ہیں ۔

دوسری طرف احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا نے بھی حکومت پر اپنا دباؤ کم کردیا ، قاتلوں نے بھی سوچا ہوگا کہ مفتی نظام الدین شامزئیؒ ، مولانا یوسف لدھیانویؒ ، مفتی سعید احمد جلالپوریؒ ، علامہ عبدالغفور ندیمؒ ، مفتی عتیق الرحمنؒ ، مفتی عبدالمجید دین پوریؒ، مولانا اسلم شیخوپوریؒ اور مولانا سمیع الحق صاحب سمیت سینکڑوں اکابر علماء کی طرح یہ خون بھی ہضم ہو جائے گا ، کیونکہ قاتلوں نے مفتی تقی عثمانی صاحب پر بھی قاتلانہ حملہ کیا تھا انہیں پھر بھی کوئی گرفتار نہیں کرسکا تھا ، جس کی وجہ سے اُن کے حوصلے بہت بڑھ چکے ہیں ، یہ بات بھی طے ہے کہ قاتلوں کا بہت ہی زیادہ اثر و رسوخ ہے ، لیکن اس بار قاتلوں کے ناپاک عزائم کے سامنے کراچی کی علماء کمیٹی ڈٹ گئی ، کئی خطرات کے باوجود اس کمیٹی نے مولانا عادل خانؒ کے قتل کو ہضم کرنے کی کوششوں پر بیدار رہ کر پانی پھیر دیا۔

علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ صاحب کی یوں تو عمر 63 سال تھی ، اگر ہم ان کی زندگی کا سطحی مطالعہ بھی کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ ان 63 سالوں پر ان کی 40 دن کی زندگی بازی لے گئی یعنی 30 اگست 2020 کو جب عاشورہ کے موقع پر کراچی میں توہین صحابہ ہوئی اور اس توہین کے خلاف علامہ ڈاکٹر عادل خان شہیدؒ نے اصولی مؤقف اپنایا اور بکھری امت کو متحد کرنے کا فریضہ انجام دیا ، یہ کارنامہ ان کی زندگی کا سب سے روشن باب ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی ، انہوں نے ان 40 دنوں میں جس انداز میں گستاخ صحابہ کو للکارا ، ان کی للکار سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ انہوں نے اس تحریک کا ابھی آغاز کیا ہے ، ان کی گفتگو اور اعتماد سے یوں لگتا تھا کہ انہوں نے برسوں اس عنوان پر محنت کی ہے ، ان کا ایک جملہ میرے دل میں گھر کر گیا یہ جملہ ہر تحریکی کارکن کے لئے مشعل راہ ہے ، علامہ ڈاکٹر عادل خانؒ 2 ستمبر 2020 کو علماء کرام سے اپنے بیان میں فرما رہے تھے کہ جسے قیادت کا شوق ہے اسے قیادت دیں گے ، جسے آگے آنے کا شوق ہے اسے آگے آنے کا موقع دیں گے لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کسی کو بھی اس مئوقف کا سودا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، ایک مخلص بندے کی یہی نشانی ہے کہ وہ اپنے عہدے کے لئے بھاگ دوڑ نہیں کرتا ، البتہ وہ یہ کوشش ضرور کرتا ہے کہ قیادت کسی بازیگر اور سوداگر کے ہاتھ میں نہ جائے ، علامہ عادل خان شہیدؒ اسی طرف اپنے بیان میں اشارہ فرما رہے تھے ۔

میرا سب قارئین سے سوال ہے کہ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ اکابر علماء کا دشمن اگر یونہی خون بہاتا رہا اور کسی دن اللہ نہ کرے کہ ہمارے استادِ محترم مفتی تقی عثمانی صاحب ، مفتی منیب الرحمن صاحب ، مولانا منظور مینگل صاحب اور علامہ فاروقی صاحب وغیرہ کی طرز کے چند اور علماء بھی ان کا نشانہ بن گئے تو اسلامی دنیا کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اسلام دشمنوں کے لئے کیسا کھلا ماحول ہو جائے گا ، اس لئے حالات کی سنگینی کا اندازہ کریں اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں ۔

اگر عوام نے علماء کا ساتھ دیا تو ان شاءاللہ قاتل بھی گرفتار ہوں گے اور آئندہ علماء کی مناسب سیکورٹی کابندوبست بھی ہوگا اور اگر عوام نے ساتھ نہ دیا تو یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ نہ پھر یہ قاتل ملیں گے اور نہ ہی آئندہ اکابر علماء کی مناسب سیکورٹی ہوگی ، پھر اللہ نہ کرے کوئی حادثہ ہوگیا تو یقیناً آج کے گفتار کے غازی بھی ذمہ دار ہوں گے کردار کے غازی میدان عمل میں ہیں جبکہ گفتار کے غازی باتیں گھڑنے میں مصروف ہیں کہ کسے کیا کہہ کر مطمئن کرنا ہے ، انا پرست لوگ آج بھی ناک سے نیچے نہیں دیکھ رہے ہیں ، لیکن اللہ کی مدد کردار کے غازیوں کے ساتھ ہے میرا کامل یقین ہے کہ کردار کے غازی کامیاب ہوں گے ، دنیا میں بھی آخرت میں بھی لیکن گفتار کے غازی محض منہ تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ شہادت ہمیشہ کردار کے غازیوں کا ہی شیوہ رہا ہے، کردار کے غازیوں کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 28101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.